سلیم اللہ صفدرطب و صحت

صحت کارڈ | تپتے صحرا میں ایک سایہ دار شجر

صحت کارڈ تپتے صحرا میں ایک سایہ دار شجر

صحت کارڈ یا ہیلتھ کارڈ تحریک انصاف کا ایک شاندار منصوبہ ہے۔ جو کسی بھی مریض یا اس کے اہل خانہ کے لیے تپتے صحرا میں کسی نخلستان میں بہتے ٹھنڈے چشمے سے کم نہیں. ایک ایسا شجر جس کے سائے میں بیٹھ کر تھکا ہارا مسافر اپنی درد بھری زندگی سے چھٹکارا حاصل کر کے کچھ ساعتیں سکون محسوس کرتا ہے.

یہ منصوبہ خیبر پختون خواہ اور آزاد کشمیر میں پہلے اور پاکستان میں پچھلے سال شروع ہوا. اس کے آغاز سے پہلے لوگ حیران تھے کہ خالی خزانے کے ہوتے ہوئے یہ منصوبہ کیسے پایا تکمیل تک پہنچ سکتا ہے۔ اور اس کے اغاذ کے بعد اس کی تکمیل دیکھ کر وہ لوگ دنگ رہ گئے جو پورے تین سال مہنگی ترین ادویات خرید کر اپنا اور اپنے پیاروں کا علاج کرواتے رہے.

میں نے بہت سارے ڈاکٹرز اور سیاسی جماعتوں سے وابستہ دوستوں سے معلومات لیں اور غیر جانبدار ہو کر جو بات سمجھ آئی آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں.

صحت کارڈ سے ہر پاکستانی فائدہ اٹھا سکتا ہے۔

سب سے پہلے تو یہ سمجھ لیں اس صحت کارڈ سے ہر پاکستانی فائدہ اٹھا سکتا ہے لیکن چند مختلف صورتوں میں۔  اور جو مختلف صورتیں ہیں وہ بالکل واضح ہیں اور پہلے سے طے شدہ ہیں. یعنی ایسا نہیں کہ کسی ایک مریض یا ایک شہر میں صحت کارڈ کی شرائط کچھ ہوں اور دوسرے میں کچھ اور. یا ڈاکٹر اپنی مرضی سے شرائط تبدیل کر کے کرپشن کر کے پیسے جیب میں ڈال لیں. اصل بات تو یہ ھے کہ اس سارے کیس میں کہیں پیسے کا عمل دخل ہے ہی نہیں. مریض کو پیسے دینے نہیں پڑتے۔ اور ڈاکٹر یا اس سے متعلقہ پرائیوٹ کمپنی پہلے ہی پیسے وصول کر چکی ہے.

یہ منصوبہ دراصل بنایا ہی اسی بنیاد پر گیا کہ حکومت سے ملنے والا ریلیف عوام تک پہنچنے تک کے درمیان جو کرپشن ہوتی ہے وہ نہ ہو. اور حکومت کی طرف سے جو بھی سہولت مل رہی ہے وہ عوام کے ہاتھ میں پہنچے. شوکت خانم بنانے والے اور اسے کامیابی سے چلانے والے خان صاحب ادویات تو تین سال تک سستی نہیں کر سکے۔ لیکن اس کا حل پھر انہوں نے یہی نکالا کہ ہسپتال میں داخل مریضوں کی نگہداشت اور آپریشن فری کر دئیے. تا کہ وہ مریض جو زندگی موت کی کشمکش میں پھنسے ہوئے ہیں ان کا علاج اس وجہ سے موخر نہ ہو کہ ان کے پاس آپریشن کے پیسے نہیں.

صحت کارڈ چیک کرنے کا طریقہ

ابتدا میں ہر پاکستانی کو صحت کارڈ اس کے گھر پہنچانے کا ارادہ تھا۔ لیکن ڈیجیٹل ترقی و سہولیات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے آپ کے قومی شناضتی کارڈ کو ہی صحت کارڈ کا درجہ دے دیا گیا۔ اب آپ کا قومی شناختی کارڈ آپ کا صحت کارڈ ہے۔ اور یہ چیز چیک کرنے کے لیے اپنے قومی شناختی کارڈ کا نمبر 8500 پر ایس ایم ایس کریں۔ آپ کو فوراً جوابی میسج وصول ہوگا جس سے آپ کو پتہ چل جائے گا کہ آپ کا شناختی کارڈ پر صحت کارڈ کی سہولت موجود ہے کہ نہیں۔

آپ ایک خاندان کا فرد ہیں جس میں بغیر شناختی کارڈ یعن اٹھارہ سال سے کم عمر بچے بھی ہو سکتے ہیں تو یہ تمام ریکارڈ NADRA  کے ذریعے آپ نے خود گورنمنٹ کو دیا ہوا ہے اور یہی ریکارڈ ہر اس ہسپتال والوں کے پاس موجود ہے جو صحت کارڈ کے ذریعے علاج کی سہولت دے رہے ہیں

دوسری صورت میں یہ ویب سائٹ وزٹ کریں  اور citizen number  کے خانے میں  اپنا قومی شناختی کارڈ نمبر لکھیں ۔ اس سے آپ کو مکمل معلومات مل جائے گی کہ  آپ صحت انصاف کارڈ حاصل کرنے کے اہل ہیں یا نہیں۔

صحت کارڈ تپتے صحرا میں ایک سایہ دار شجر
Health card board in Hospitals

صحت کارڈ پر موجودہ سہولیات کی تفصیل

صحت کارڈ پر کیا کیا سہولیات موجود ہیں اور کیا کیا نہیں اس پر ایک الگ آرٹیکل لکھنے کی گنجائش ہے۔ وہ تمام تر تفصیلات آپ یہاں دیکھ سکتے ہیں ۔ اور اس کے علاوہ مختصر یہ سمجھ لیں کہ ایسی بیماری جس میں مریض کا کوئی آپریشن ہو یا اسے ہسپتال ایڈمٹ کرنا پڑے وہاں اس کے علاج کا خرچ صحت کارڈ پر ہو گا۔ باقی اگر مریض چیک اپ کروا کر گھر آ جاتا ہے تو اسے اپنے علاج کے لیے لی جانے والی ادویات اپنی جیب سے ہی ادا کرنی پڑیں گی.

اب ہوا یہ کہ تحریک انصاف اپنے تین سالہ دور حکومت میں کرونا، اپوزیشن، مافیہ عدلیہ اور آخر میں باجوہ کا بہانہ بنا کر کوئی عوامی ترقیاتی پروجیکٹ مکمل نہ کر سکی۔ اور جب نومبر 2021 میں عمران خان اور جنرل باجوہ کے درمیان نااتفاقی اور باہمی لڑائی کے نتیجے میں تحریک انصاف کو علم ہوا کہ ان کی حکومت اب نہیں بچنے والی۔۔۔ تو انہوں نے وہ پیسہ جو عوام سے تین سال ٹیکس کی صورت میں اور خالی خزانے کے بہانے کی صورت میں وصول کیا تھا دوبارہ صحت کارڈ کی شکل میں پرائیویٹ کمپنی کے حوالے کر دیا. یعنی تین سال مہنگی ادویات کی مد میں پاکستانی عوام سے لیا جانے والا ٹیکس دوبارہ عوام کے ہاتھوں میں۔

تحریک انصاف کی مقبولت کی ایک وجہ ۔۔۔ہیلتھ کارڈ

صحت کارڈ چل پڑا۔  عدم اعتماد کے نتیجے میں تحریک انصاف کی حکومت گر گئی اور اس طرح تحریک انصاف کی ساکھ جو مسلسل مہنگائی کی وجہ سے ختم ہوچکی تھی دوبارہ بحال ہو گئی. یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ جیسے کراچی سندھ میں آج بھی بھٹو زندہ ہے جب کہ وہاں کے رہائشی پانی میں ہر سال ڈبکیاں لگاتے ہیں. بھٹو کے زندہ رہنے کی وجہ بینظر انکم سپورٹ پروگرام ہے جو ہر مہینے خواتین کے اکاؤنٹ میں پیسے پہنچا دیتا ہے۔ اور تحریک انصاف کی مقبولیت میں اینٹی اسٹیبلشمنٹ تڑکے کے ساتھ ساتھ صحت کارڈ کا بھی کافی عمل دخل ہے. ظاہری بات ہے جس خاندان میں ایک فرد بھی صحت کارڈ کی بدولت موت کے منہ میں جاتے جاتے واپس آیا ہو اس پورے خاندان کی حمایت تو تحریک انصاف کو ہی حاصل ہو گی.

ہیلتھ کارڈ پر  استعمال ہونے والی رقم کہاں سے ائی

اب یہ جو ہم چند ماہ سے ڈیفالٹ ہونے کی باتیں سن رہے تھے وہ یہی وجہ تھی کہ سابقہ تین سال عوام سے لیے گئے ٹیکس کا سارا پیسہ صحت کارڈ کی شکل میں واپس عوام کے پاس پہنچ گیا اور پی ڈی ایم حکومت خالی خزانہ لیکر بیٹھی ہوئی ہے. اب پی ڈی ایم والے یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ ملک صرف آئی ایم ایف امداد نہ ہونے کی وجہ سے ڈیفالٹ کے قریب ہے ۔

اور اس سے زیادہ دلچسپ بات یہ کہ تحریک انصاف بھی نہیں پوچھ سکتی کہ ہم تو خزانہ بھر کر گئے تھے وہ کہاں گیا؟ کیوں کہ انہیں بھی معلوم ہے کہ ہر چھوٹے بڑے پاکستانی خاندان کے دس لاکھ کے حساب سے عوام کا پیسہ صحت کارڈ چلانے والی کمپنی کو سرکاری خزانے سے ادا کیا جا چکا ہے. جو بوقت ضرورت دوبارہ عوام پر استعمال بھی ہو رہا ہے الحمد للہ

صحت کارڈ ن لیگ کا منصوبہ؟

اب مزید دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ منصوبہ دراصل ن لیگ کا شروع کیا ہوا ہے لیکن ہر نئی حکومت اورر اس کے سیاستدان سابقہ حکومت کے ترقیاتی منصوبوں کی تختی اتار کر اپنے نام کی تختی لگا دیتے ہیں یا لگانے کی کوشش کرتے ہیں . اور یہاں بھی یہی کچھ ہوا.

پی ٹی آئی کی حکومت آتے ہی وہ والا صحت کارڈ بند کر دیا گیا… جس پر عمران خان نے مسلم لیگ ن  پر تنقیدی ٹویٹ کی تھی .

صحت کارڈ تپتے صحرا میں ایک سایہ دار شجر
Imran khan tweet about PMLN Health card

مزید یہ کہ تحریک انصاف حکومت بنتے ہی ادویات مہنگی کر دی گئیں. اور پھر اپنے دور اقتدار کے آخری دنوں میں صحت کارڈ کو تحریک انصاف کا بہترین اور منفرد نوعیت کا انقلابی اقدام بنا کر پیش کیا گیا. اور لوگوں نے تسلیم بھی کر لیا.

اس کی ایک وجہ ن لیگ کا میڈیا سیل تحریک انصاف کے مقابلے میں انتہائی کمزور ہے اور دوسرا ن لیگ پر جتنے کرپشن کے کیسز اور الزامات ہیں ان کی روشنی میں ن لیگ کے اچھے اقدامات بھی چھپ جاتے ہیں. ایک بڑی وجہ اور بھی ہیں کہ ن لیگ والے اپنے ترقیاتی کام بیان کرنے کا سلیقہ نہیں رکھتے. مثلاً تین سال قبل موٹر وے زیادتی کیس کے موقع پر شہباز شریف قومی اسمبلی میں تقریر کے دوران فرما گئے کہ چونکہ یہ زیادتی موٹر وے پر ہوئی اس لیے یہ کہنا غیر مناسب نہیں ہو گا کہ یہ موٹر وے بھی میاں نواز شریف صاحب نے بنوائی تھی. اب جب آپ قومی اسمبلی میں موقع کی نزاکت و مناسب سمجھے بغیر اپنے ترقیاتی منصوبوں سے پردہ اٹھانا شروع کریں گے تو بدلے میں تعریف نہیں ٹماٹر اور جوتے ہی ملیں گے

پرائیوٹ کمپنی صحت کارڈ کے ذریعے ہر پاکستانی کا  بلاتخصیص علاج کرتی ہے

پرائیوٹ کمپنی نے حکومت سے پیسے وصول کرنے کے بعد ہر بڑے شہر کے مختلف ہسپتالوں میں صحت کارڈ کی سہولت مہیا کی. گورنمنٹ نے نہ صرف آن لائن بلکہ ہر متعلقہ ہسپتال میں بورڈ لگوا کر بھی بتا دیا کہ یہاں علاج صحت کارڈ کے ذریعے ہو گا.

اب مریض آن لائن صحت کارڈ والا ہسپتال تلاش کرتے ہیں اسی ہسپتال میں پہنچتے ہیں… چیک اپ کرواتے ہیں اگر وہ علاج صحت کارڈ کی شرائط کے مطابق ہونا ہوتا ہے تو فری ہو جاتا ہے ورنہ مریض کو اپنی جیب سے ادویات کے پیسے دینے پڑتے ہیں. کمپنی نہ ہی کسی مریض کا اندراج کر کے اس کے علاج سے بلاوجہ انکار کرتی ہے (کیوں کہ یہ گناہ بے لذت ہے یعنی اس صورت میں ہسپتال میں بیٹھے کمپنی کا نمائندہ کو کچھ بھی نہیں ملتا ) اور نہ ہی ہر چھوٹے بڑے مرض میں مبتلا فرد کو صحت کارڈ کے ذریعے علاج کی سہولت دیتی ہے.

صحت کارڈ انتہائی مفید اور شاندار عوامی منصوبہ ہے۔  اس کے بند ہونے کے کوئی امکان نہیں فی الحال اور جو اسے بند کرے گا عوام کی طرف سے شدید مزاحمت برداشت کرے گا. باقی جہاں تک یہ بات ہے کہ یہ کتنا مفید ہے تو
اس کی افادیت صرف وہی سمجھ سکتا ہے جس کا کوئی پیارا ہسپتال میں داخل ہو…. اور ڈاکٹر اچانک اسے کہے کہ آپ کے عزیز کا آپریشن ناگزیر ہے اور اتنے لاکھ روپے میں ہو گا…. ابھی آپ سوچ رہے ہوں کہ گھر کی کیا چیز بیچوں یا گروی رکھوں کہ میرا جان سے پیارا رشتہ دار دوبارہ جی اٹھے اور اسی وقت ہی ڈاکٹر آپ کو آ کر بتائے کہ آپ کے رشتہ دار کا علاج صحت کارڈ کے ذریعے مفت ہو رہا ہے… فکر نہ کریں!

 

تحریر: سلیم اللہ صفدر

Shares:
88 Comments
Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *