سکون ،عزت، صحت اور دولت کی نعمتیں اور ہماری ترجیحات
Our priorities between happiness honour health and wealth
جان ہے تو جہان ہے
جھونپڑی میں ملنے والا سکون بادشاہوں کے محلات میں کہاں؟
تنگدستی اگر نہ ہو غالب
تندرستی ہزار نعمت ہے
ہر چیز پیسہ نہیں ہوتی
چمڑی جائے دمڑی نہ جائے
پیسہ تو ہاتھ کا میل ہے
آپ نے یہ محاورے اور ضرب الامثال سنی ہوں گی. ان پر سوچا بھی ہو گا اور اکثر کو درست سمجھتے ہوں گے. تو آئیے آج ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ ایمان و سکون، عزت و شہرت، صحت و تندرستی، معیشت و دولت میں انسانوں کی یعنی ہماری ترجیحات کیا ہیں اور کیا ہونی چاہیے. اوپر بیان کردہ تمام چیزیں انسان حاصل کرنا چاہتا ہے لیکن سب کچھ حاصل نہیں کر سکتا اس لیے وہ کسی کو کسی پر ترجیح دیتا ہے.
آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ دولت ان تمام ترجیحات میں سب سے آخر میں آتی ہے یہ اور بات کہ اس کو سب سے اول باور کروانے کی جدو جہد ہر معاشرے اور ہر خاندان میں ہوتی ہے. لیکن میں دلیل اور ثبوت کے ساتھ آپ کو بتاؤں گا کہ دولت ایمان سکون صحت کی نعمتوں میں ہماری ترجیحات کے لحاظ سے سب سے آخر میں ہوتی ہے اور یہ بھی بتاؤں گا کہ سب سے آخر میں کیوں ہوتی ہے….. اور کیوں ہونی چاہیے.
لیکن اس سے پہلے ایک بات سمجھ لیں کہ دولت صحت عزت یہ سب وہ اللہ رب العزت کی نعمتیں ہیں جو یا تو ساری یا پھر ان میں سے کچھ اللہ تعالیٰ نے پیدائشی طور پر انسان کو دی ہوتی ہیں… اور اگر نہیں دی ہوتیں تو انسان ان کے لیے جدوجہد کرتا ہے اور اس جدوجہد میں کہیں کامیاب ہوتا ہے کہیں ناکام. کوئی نعمت حاصل کر لیتا ہے کسی اور نعمت کو بیچ کر اور کوئی نعمت ترک کر دیتا ہے کسی اور نعمت کو اپنے پاس محفوظ رکھنے کے لیے.
ایمان و سکون (Happiness)
یہاں میں نے دونوں الفاظ کو ایک ساتھ بیان کیا ہے اور وہ اس لیے کیوں کہ ایک مسلمان اور مومن شخص ایمان کے ذریعے ہی سکون حاصل کرتا ہے. غیر مسلم یا فاسق مسلمان بھی سکون حاصل کرتا ہے لیکن ایمان کے ذریعے سے نہیں. اب آپ غور کریں ہمارے معاشرے میں بہت سارے لوگ اور نمازی ہیں جنہیں نماز پڑھ کر یا قرآن مجید کی تلاوت سن کر سکون حاصل ہوتا ہے. یہ نماز یا تلاوت صرف اللہ کے خوف یا صرف جنت کے لالچ میں نہیں بلکہ روحانی سکون کے لیے بھی کی جاتی ہے. مسجد میں آ کر باوضو ہو کر رب کے حضور سجدہ کرنے سے اللہ کے سامنے اپنا درد بیان کرنے سے سکون حاصل ہوتا ہے. یہی سکون ایک غیر مسلم یا فاسق انسان کو سگریٹ نوشی، شراب نوشی، زنا و بدکاری کرنے سے ملتا ہے اور وہ اسے حاصل کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے.
اب یہاں غور کریں جو انسان نشہ کر رہا ہے اچھی طرح جانتا ہے کہ یہ صحت کے لیے بھی نقصان دہ ہے، بدنامی کا باعث بھی ہے اور دولت کا بھی ضیاع ہے لیکن اس کے باوجود اسی لیے وہ نشہ کرتا ہے تا کہ سکون ملے. یعنی وہ اپنی دولت بیچتا ہے صحت بیچتا ہے، بدنامی قبول کرتا اور بدلے میں سکون خریدتا ہے.
اب بالکل یہی کام ایک نمازی کرتا ہے. کاروبار کے وقت دوکان اور موبائل بند کر کے نماز و تلاوت کا اہتمام کرتا ہے. اپنی دولت کا نقصان ہونے دیتا ہے، گاہکوں سے دوکان بند کرنے پر باتیں بھی سنتا ہے، کال نہ اٹھانے پر میسج فوراً نہ پڑھنے پر اپنے گاہک سے تلخ کلامی بھی برداشت کرتا ہے لیکن سکون حاصل کرنا نہیں بھولتا. یعنی دل کا سکون سب سے اولین ترجیح ہے
عزت و شہرت (Honour)
عین ممکن ہے کہ آپ کہیں ہر انسان کو عزت و شہرت کی خواہش نہیں ہوتی لیکن آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہر انسان کے پاس بدنامی سے بچنے کی خواہش نہیں ہوتی. جس طرح معزز ہونا اور شہرت حاصل کرنا انسان کی ترجیحات ہیں بالکل اسی طرح بدنامی سے بچنا بھی انسان کی ترجیحات میں شامل ہیں. اور انسان کبھی پیسے دیکر شہرت خریدتا ہے اور کبھی پیسے دیکر خود کو بدنامی سے بچاتا ہے… بالکل اسی طرح کبھی انسان صحت پر سمجھوتہ کر لیتا ہے لیکن بدنامی پر نہیں… بیماری قبول کر لیتا ہے بدنامی قبول نہیں کرتا.
عزت اور بدنامی کے درمیان ایک تیسری چیز بھی ہے جسے گمنامی کہا جاتا ہے. اور یہ آپ سب جانتے ہیں کہ انسان بدنامی کے مقابلے میں گمنامی کو اور گمنامی کے مقابلے میں عزت و شہرت کو ترجیح دیتا ہے.
صحت و تندرستی (Health)
جیسا کہ اوپر بیان ہوا کہ انسان سکون پانے کی کوشش میں اپنی صحت و معیشت برباد کر دیتا ہے. یعنی دولت و صحت کے مقابلے میں سکون کو ترجیح دیتا ہے.
بالکل اسی طرح اگر انسان کو دولت اور صحت میں سے کچھ چننے کا موقع ملے تو وہ صحت کو چنے گا یہ سوچ کر کہ صحت ہو گی تو دولت کما لوں گا لیکن صحت نہ ہوئی تو دولت کو کیا کرنا ہے بھلا. دولت دوبارہ آ سکتی ہے لیکن صحت دوبارہ نہیں ملنی نہیں. دولت بیچ کر صحت بچائی جا سکتی ہے لیکن دولت بچا کر صحت خراب رہنے دی یعنی اپنا علاج نہیں کروایا تو اس دولت کا کیا فائدہ؟
دولت و معیشت (Wealth)
اب بات کرتے ہیں سب سے آخر میں دولت و معیشت کی.
دولت ایک ایسی نعمت ہے جس کے متعلق اکثر انسان اس دھوکے میں رہتے ہیں کہ پیسہ ہے تو سب کچھ ہے یعنی معیشت ٹھیک ہو تو باقی سب کچھ خودبخود ٹھیک ہو جائے گا. یہ ایک بہت بڑی غلطی فہمی ہے جس کی وضاحت میں کرنے لگا ہوں. بیشک دولت آپ کی زندگی میں بہت آسائشیں لاتی ہے…لیکن صحت و عزت والی نعمتیں نہیں لا سکتی. آپ کو بدنامی سے بچا سکتی ہے لیکن آپ کو عزت نہیں دلا سکتی. آپ کو بیماری سے بچا سکتی ہے لیکن آپ کو صحت یاب نہیں کر سکتی. ان دونوں باتوں میں کتنا فرق ہے آپ کو سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں.
آپ کو کہیں بدنامی کا خطرہ ہے آپ رشوت دیکر اگلے کا منہ بند کر کے اپنی عزت بچا سکتے ہیں لیکن آپ عزت بچا رہے ہیں عزت کما نہیں رہے. یعنی یہ دولت اگر آپ کسی کو دو اور اسے کہو کہ میری شہرت میں اضافہ کرو تو اس دولت کے بدلے آپ کی شہرت میں اضافہ نہیں ہو گا البتہ یہ مشہور ضرور ہو جائے گا کہ اس نے دولت خرچ کر کے شہرت کمائی. یا جسے آج کل دنیا میں پیڈ پروموشن کہا جاتا ہے. وہ کتنی موثر ہوتی ہے سب جانتے ہیں.
بالکل اسی طرح آپ دولت کے ذریعے صحت نہیں خرید سکتے… ہاں البتہ اگر آپ بیمار ہیں تو بیماری دور کر سکتے ہیں اپنے علاج پر پیسے خرچ کر کے. کتنے لوگ ہیں جو دولت کے بدلے اپنا ایک گردہ اس لیے بیچ دیتے ہیں کہ ایک گردے سے دونوں گردوں کا کام چلتا رہے گا لیکن کوئی بندہ اپنا ہاتھ کاٹ کر یا اپنی آنکھ نکال کر نہیں بیچتا کیوں کہ اسے معلوم ہے کہ اس ہاتھ کے بدلے جتنے بھی پیسے مل جائیں ناکافی ہیں. یعنی دولت کے ذریعے بیماری کا علاج ممکن ہے لیکن صحت نہیں خریدی جا سکتی یا یوں کہہ لیں کہ صحت بیچ کر دولت کمانا کوئی مناسب نہیں سمجھتا البتہ دولت خرچ کر کے صحت قائم رکھنا ہر انسان چاہتا ہے.
مزید یہ کہ آپ دولت کے ذریعے سکون بھی نہیں خرید سکتے البتہ بے سکونی کا علاج ضرور کر سکتے ہیں. یعنی دولت کے ذریعے خواب آور گولیاں، پین کلر گولیاں خرید سکتے ہیں لیکن یہ سب بے سکونی کا علاج ہے. وہ سکون جو اللہ رب العزت نے آپ کو عطا کیا ہے وہ آپ دولت کے بدلے کبھی بیچنے پر راضی نہیں ہوں گے. یعنی اگر آپ کو کہا جائے آپ نے ایسی جگہ ڈیوٹی دینی ہے جہاں ہر لمحہ دماغ پریشان رہے، خطرات ہوں، الجھنیں ہوں، پریشانی ہو اور اس کے بدلے میں آپ کو اتنے پیسے ملینگے تو آپ وہ آفر اس وجہ سے ٹھکرا دیں گے کہ میں نے ان پیسوں کو سر میں مارنا ہے جب مجھے سکون ہی حاصل نہیں….؟
سکون عزت صحت اور دولت کے درمیان ہماری ترجیحات
اب وہ لوگ جو اکثر اپنی معیشت کا رونا روتے رہتے رہتے ہیں اور معیشت کو سب سے اولین ترجیح دینے کی کوشش کرتے ہیں ان پر بات ہو جائے. یہ وہ لوگ ہیں جو عزت سکون اور صحت کو معیشت پر پہلے ہی فوقیت دے چکے ہیں لیکن پھر بھی روتے ہیں کہ ہم غریب ہے ہماری غربت ختم نہیں ہوتی. حالانکہ سوچنا چاہیے کہ اگر غربت کرنے کا اتنا ہی شوق ہے تو صحت بیچیں یعنی ہسپتال جا کر اپنی ایک ٹانگ، ہاتھ یا گردہ قربان کریں اور معیشت مضبوط کر لیں… اگر یہ نہیں تو اپنی اور اپنے گھر والوں کی عزت بیچیں اور پیسہ حاصل کریں…یا پھر سکون بیچیں.. کسی کے گھر چوری کریں ڈاکہ ڈالیں اور خوب معیشت مضبوط کر لیں… لیکن یہ کوئی بھی نہیں کرتا. یعنی یہ لوگ معیشت کا رونا اس وقت روتے ہیں جب عزت سکون اور صحت مضبوط و محفوظ کر چکے ہوتے ہیں. اس لئے ان کے رونے پر دھیان دینے کی ضرورت نہیں البتہ جو لوگ یہ بات نہیں سمجھتے ان سے گزارش ہے کہ معیشت پر فوکس کریں لیکن باقی چیزوں کو اگنور مت کریں.
دولت کمائیں ضرور کمائیں لیکن ایمان بیچ کر نہیں، سکون بیچ کر نہیں ، معیشت مضبوط کریں لیکن عزت کے بدلے نہیں… صحت کے بدلے نہیں.
خلاصہ کلام یہ ہے کہ آپ دولت بیچ کر یعنی رشوت دیکر بدنامی سے بچ سکتے ہیں عزت نہیں کما سکتے
آپ دولت قربان کر کے یعنی ادویات خرید کر بیماری سے بچ سکتے ہیں…. صحت نہیں خرید سکتے
آپ دولت بیچ کر بے سکونی سے بچ سکتے ہیں پین کلر نشہ آور ادویات خرید کر…. لیکن سکون حاصل نہیں کر سکتے.
اس لئے اپنی ترجیحات اور اپنے اہداف پہلے سے ہی طے کر لیں اور اسی کے مطابق اپنی زندگی کو ترتیب دیں.
تحریر : سلیم اللہ صفدر
پاکستان میں بچوں کی تربیت اسلام کے مطابق کیسے کریں ؟ ایک سوال اور اس کا جواب