سقوط ڈھاکہ جسد ملت کا وہ زخم جسے مندمل ہونے میں پچاس سال لگ گئے

1 43

سقوط ڈھاکہ جسد ملت کا وہ زخم جسے مندمل ہونے میں پچاس سال لگ گئے

سقوط ڈھاکہ امت کے قلب و جگر میں اترا وہ زخم ہے جسے بھلایا نہیں جا سکتا.
1971ء میں مشرقی پاکستان کو دو لخت کرنے والا اندرا گاندھی فخر سے اس بات کا اعلان کر رہا تھا کہ ہم نے مسلمانوں کے دو قومی نظریے کو ملیامیٹ کر دیا
وہ پاک نظریہ جس کی بنیاد پر ہجرت مدینہ ہوئی.  وہی پاک نظریہ جس کی بنیاد پر پاکستان معرضِ وجود میں آیا.
پاکستان کو دو لخت کرنے میں جہاں بھارت کا اہم کردار تھا وہیں امریکہ سویت یونین اس کی پشت پناہی کر رہے تھے
غیروں کی سازش تو شامل حال رہی مگر کچھ اپنوں کی بے وفائیاں بھی عروج پر تھیں. جس میں سیاسی حق سے محرومی، اہل بنگال کا معاشی استحصال، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم شامل ہے.
جس امت کے رہبر و رہنما نے چودہ سو سال قبل دنیا میں اخوت و مساوات کی لازوال مثال پیش کی، 1971ء میں وہی امت اپنے رہبر و رہنما کی تعلیمات کو بھلا کر لسانی ثقافتی علاقائی تعصبات کی آگ میں جل رہی تھی

اسی فتنہ و شر کے ماحول میں کچھ دل دردِ امت سے معمور تھے. وہ اہلِ وفا لسانی ثقافتی علاقائی تعصبات سے بالاتر تھے. وہ ارض پاک کی پاسبانی کے لیے یک جان تھے. وہ علیدگی پسندوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار تھے. وہ پاکستان کے اسلامی اور جغرافیہ اتحاد کے لئیے حزب الشیطان سے ٹکرانے  کو اپنا فرض سمجھتے تھے. وہ جذبہِ شہادت سے سرشار تھے۔  ان کے لہو سے تاریخ کے اوراق پر لکھا گیا کہ دنیا میں ایسے نظریاتی نوجوان موجود ہیں جو ملک و ملت اور ریاست کے تحفظ کے لیئے جان قربان کرنے  میں ذرا تأمل نہیں کرتے
قربانیوں کے یہ سلسلہ رکا نہیں… تھما نہیں. اور اس دوران سقوط ڈھاکہ کا یہ زخم اہل پاکستان کے دل میں پیوست ہو گیا. کراچی سے لیکر بنگال تک درد و غم کی ایک لہر ہر دل کو زخمی کر گئی.

اہل وفا کا اصل امتحان تو سقوط ڈھاکہ کے بعد شروع ہوا. 50 سال سے زائد عرصہ اہل بنگال ظلم کی چکی میں پستے رہے. ہر سال قافلہ صدق وفا کے رہبر ظلم کی بھینٹ چڑھتے رہے مگر حق کے راستے سے انحراف نہ کیا.
اس تمام عرصے میں ظلم کی آگ کی بھٹی میں وہ لعل و گوہر تیار ہوئے جنہوں نے حق کو دنیا پر عیاں کیا اور باطل پرستوں پر ایسا کاری وار کیا کہ دنیا میں اس کی نظیر نہیں ملتی. بالآخر وہ انقلاب برپا ہو ہی گیا جس کی خاطر اہل اسلام نے خون کے نذرانے پیش کئے. اہل ایمان سرخرو ہوئے۔۔۔ اہل جنوں جنت کے راہی بنے
حق اگیا اور باطل نعبود ہوگیا۔

1971ء میں اندرا گاندھی نے کہا تھا مسلمانوں کا نظریہ خاک میں ملا دیا مگر اس کو کیا معلوم تھا کہ جس نظریہ کی بنیاد لاالہ الااللہ ہو اسے کبھی دبایا نہیں جا سکتا۔  اس نظریہ میں وہ لچک ہے کہ جتنا دباؤ گے اتنا ہی یہ ابھرے گا۔ 2024 میں کوٹہ ریفارم کے نام پر اہل بنگال اپنی اس حکومت کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی جو ان کے خون اور ان کی ہڈیوں سے تعمیر ہوئی تھی۔ وہ عمارت ایک ہی وار سے گر گئی اور اہل اسلام اسے اپنے قدموں تلے روندتے ہوئے اسی نظرئیے کو دوبارہ زندہ کر گئے جس نظریہ کے بنیاد پر انہوں نے ہندوؤں سے آزادی حاصل کی تھی۔
اے ہندو بنئیے سن
اب وہ وقت دور نہیں کہ اہل وفا کہ یہ قافلے تمہارے گندے اور پلید نظریات کو تمہارے سومنات سمیت ممبئی اور دہلی میں دفن کرنے والے ہیں
حق ہمشیہ غالب آتا ہے اور باطل کا مقدر نست و نابود ہونا ہے

تحریر : علی حسن

جدا ہم ہو گئے لیکن محبت کم نہیں ہو گی |  سقوط ڈھاکہ پر شاعری

سقوط ڈھاکہ ایک تاریخی زخم |اسے یوم سیاہ نہیں بلکہ یومِ وفا کے طور پر منائیں

تعمیر پاکستان سے تکمیل پاکستان تک |قربانیوں کی داستان سے عزم عالیشان تک

1 تبصرہ
  1. علی حسن کہتے ہیں

    دوبارہ متحد ہو کر ہر اک بدلہ چکائیں گے
    وہ بنگلہ دیش سے کوئٹہ ہر اک دل کو ملائیں گے
    دلوں میں پنہاں جذبوں کی صداقت کم نہیں ہو گی
    جدا ہم گئے لیکن محبت کم نہیں ہوگی..!

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.