آج ہم غور کرتے ہیں کہ پاکستانی سیاست میں اخلاقیات کا کیا کردار ہے ؟ اور کتنی حد تک تمام سیاسی پارٹیوں میں موجود ہے۔ عمران خان صاحب پر لانگ مارچ میں گولیاں چلیں تو نون لیگ کے کارکنان نے مذاق اڑایا۔ کبھی کہتے ہیں کہ دائیں ٹانگ میں گولی لگی، اور کبھی یہ کہ دونوں میں لگی۔ کبھی کہتے ہیں گولیاں تین تھیں، اور کبھی چار۔ اور پولیس کے بقول ایک بھی نہیں لگی بلکہ ذرات تھے۔ اور اتنی گولیاں لگنے کے بعد پھر دونوں ٹانگوں پر چل کر آتے ہیں۔ پھر ٹانگوں پر پلستر کا مذاق اڑایا جا رہا ہے کہ ہڈی ٹوٹی نہیں تو پلستر کیسا؟ اور ہڈی ٹوٹی ہے تو چلنا کیسا! پھر یہ بھی میمز بنائی گئیں کہ اس نرس کی گھڑی غائب ہے جو عمران خان صاحب کی دیکھ بھال کر رہی تھی، وغیرہ وغیرہ۔
لیکن سوچنے کی بات یہی ہے کہ جب نواز شریف بیمار تھے یا ان کی اہلیہ کینسر کے سبب بستر مرگ پر تھیں تو پی ٹی آئی کے لوگ مذاق اڑاتے تھے کہ سارا ڈرامہ ہے۔ جب حامد میر کو گولیاں لگیں تو انہوں نے کہا کہ ڈرامے کر رہا ہے۔ جب مریم نواز نے دوران قید کہا کہ میرے واش روم میں بھی کیمرے لگے ہیں تو اعظم خان سواتی صاحب نے مذاق اڑایا۔ جب پرویز رشید نے کہا کہ ان کے ساتھ جسمانی، ذہنی اور جنسی تشدد کیا گیا تو ان کا پی ٹی آئی کے کارکنان نے مذاق اڑایا۔
آج اعظم خان سواتی صاحب کا وقت آیا ہے۔ وہ پریس کانفرنس میں رو پڑے ہیں کہ ان کی اور ان کی اہلیہ کی ویڈیو بنا کر ان کی بیٹی کو بھیجی گئی ہے۔ اور نون لیگ کے لوگ مذاق بنا رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ ایف آئی اے کی رپورٹ کے مطابق فیک ویڈیو ہے۔ کچھ کہہ رہے ہیں کہ ڈرامہ ہے۔
ہمیں پاکستانی سیاست میں اخلاقیات وضع کرنی پڑیں گئں
۔ ہمارا دین تو ہمیں میدان جنگ میں بھی اخلاق کی تعلیم دیتا ہے، یہ تو پھر سیاست ہے۔ ایک ہی دین اور قوم کے لوگ ہیں۔ باقی بیانیے مختلف ہیں اور ہو سکتے ہیں اور اس کی گنجائش ہے۔ نون لیگ کے سینیٹر مشاہد اللہ خان صاحب نے پی ٹی آئی کے لوگوں سے کہا تھا اور وہ کلپ بہت وائرل ہو رہا ہے کہ تم لوگوں نے رونا ہے اور ہم تمہارے آنسو پونچھیں گے۔ آج نون لیگی اس کلپ کو وائرل کر رہے ہیں لیکن کل کو یہی کلپ ان کے لیے بھی استعمال ہو سکتا ہے۔
یہ لوگ کب سمجھیں، اور کب سدھریں گے۔ کل نون لیگ کی باری لگی ہوئی تھی، آج پی ٹی آئی کی لگی ہے۔ کل کو پھر نون لیگ کی ہو سکتی ہے۔
کچھ اخلاقیات کا خیال دونوں طرف سے ہونا چاہیے۔ سب لوگ نہ بھی کر پائیں لیکن کم از کم کچھ لوگوں کو دونوں طرف سے اس قسم کے ظاہری اخلاق کا مظاہرہ کر لینا چاہیے۔ بھلے دل سے کچھ بھی سمجھتے ہوں۔ ورنہ تو یہ نہ رکنے والی جنگ ہے۔ یا پھر تمہاری قسمت وہی ہے جو تم ایک دوسرے کے حوالے سے شعور کے ساتھ یکے بعد دیگرے کر رہے ہو۔ کہ گاؤں کے چوہدری کو اپنے ساتھ ملاؤ اور دوسرے کی کُٹ لگاؤ۔
لیکن یہ کھیل کب تک چلے گا۔ اب دونوں کو تجربہ ہو چکا بلکہ تینوں کو لہذا اس کھیل سے نکل جائیں۔
پاکستانی سیاست میں اخلاقیات ناگزیر ہے۔ پاکستان اور قوم بلکہ مذہب اور دین کی خیر اور بھلائی بھی اسی میں ہے۔ سیاست اتنی گندی ہو چکی ہے کہ عام آدمی کا تو دل ہی نہیں کرتا کہ کوئی بات کرے۔ بھلے لوگ اب خاموش ہو جائیں گے۔ ویڈیو ویڈیو بھی بہت ہو چکا، اب بس کر دیں۔ جزاکم اللہ خیرا
تحریر :حافظ محمد زبیر
Special thanks for Hm Zhbair