اعتکاف کی اہمیت اور فضیلت | ایک ایسی عبادت جو بندے کو رب کے قریب تر کر دے

Importance of ramadan retreat

0 0

اعتکاف ہی درحقیقت قرآن کی اس آیت پر سو فیصد عمل کا موقع دیتی ھے جس میں اللہ نے انسانوں اور جنوں کی پیدائش کا مقصد  اپنی عبادت قرار دیا ھے۔۔ وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون۔۔۔صحیح بات یہی ھے، اللہ کی زیادہ سے زیادہ خالص عبادت کا مقصد تنہائی اور اعتکاف میں ہی پورا ھوتا ھے۔۔۔یوں تو انسان اپنے دل کو تسلی دیتا ھے کہ دنیا کا کوئی بھی کام ،کاروبار وغیرہ اسلام کے مطابق کرتے رھو تو تب بھی دنیا کا ہر کام عبادت بن جاتا ھے۔۔۔ لیکن حقیقت یہ ھے کہ جن اعمال کو واقعی عبادت کہا گیا،یہ کاروبار ،نوکریاں وغیرہ براہ راست عبادت کی اس ذیل میں نہیں آتیں جس طرح کہ نماز ،روزہ ،حج عمرہ،دعا ،ذکر وغیرہ اتے ہیں۔۔۔ پھر عبادت کے ان اعمال میں بھی نماز کی فضیلت و فرضیت یقینا سب سے زیادہ ھے اور نماز میں بھی عبادت کے سب سے اھم رکن کی حیثیت سجدہ کو حاصل ھے کہ یہی اصل مطلوب ھے کہ انسان اللہ کو اپنا معبود واحد اور صرف اسی کو مشکل کشا،داتا ،دستگیر،حاجت روا سمجھ کر اپنا سر تسلیم اس کی بارگاہ میں جھکاتا ھے یا نہیں ۔۔

یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ھے
ہزار سجدوں سے دیتا ھے آدمی کو نجات

اسی طرح حج و عمرہ کی عبادت کی فضیلت و فرضیت بھی یقینا بہت زیادہ ھے کہ اس میں اللہ کے گھر کے دیدار اور زیارت کا موقع ملتا ھے اور اللہ کی تجلیات کے نزول کا براہ راست مشاہدہ ھوتا ھے۔۔۔لیکن اس میں بھی یہی بات ھے کہ جتنی یکسوئی سے عبادت کا موقع اعتکاف کے عمل میں انسان کو ملتا ھے،اتنا موقع شاید حج عمرہ میں بھی نہیں ملتا۔۔اللہ کا قرب جس قدر انسان کو تنہائی میں بیٹھ کر اللہ کی عبادت کر کے حاصل ھوتا ھے،اتنا کسی اور عمل میں یہ قرب کم ہی حاصل ھوتا ھے۔۔۔کیونکہ اس عمل میں انسان دنیا سے تقریبا کٹ کر بیٹھتا ھے۔۔۔لوگوں سے ربط و تعلق کم سے کم ھوتا ھے۔۔تزکیہ نفس، اصلاح نفس اور روحانی ترقی جتنی یہاں ممکن ھے ،اتنی شاید ہی کسی اور عمل میں ممکن ھو۔۔۔اللہ کی عبادت جس خضوع و خشوع اور پوری خشیت و رقت سے تنہائی اور خلوت میں کرنے کا انسان کو موقع اور مزہ ملتا ھے، ایسا موقع کسی جلوت و مجلس میں کم ہی میسر ھوتا ھے ۔۔

اللہ کی عبادت اس طرح کہ جیسے وہ اپنے بندے کو دیکھ رہا ہے

حدیث میں ھے کہ اللہ کے محبوب نبئ کریم علیہ الصلوہ والسلام نے احسان کے بارے جبرئیل علیہ السلام کے ایک سوال پر بتایا کہ احسان یہ ھے کہ بندہ اللہ کی عبادت اس طرح کرے گویا کہ وہ اللہ کو دیکھ رہا ھے اور اگر یہ تصور نہیں کر سکتا تو کم از کم یہ تصور کر لے کہ اللہ اسے دیکھ رہا ھے(مسلم)۔۔اب ھم خود سوچ لیں کہ اللہ کو دیکھنے کا تصور یا یہ تصور کہ اللہ ہمیں دیکھ رہا ھے۔۔۔ایسا علو تخیل اور تصور کی ایسی بلندی لوگوں کی موجودگی اور ہجوم میں کہاں حاصل ھو سکتی ھے۔۔۔سوچیں ،اللہ کو دیکھنے کا یہ تصور ھم نے کبھی باندھا۔۔ہمارے شاعر حضرات اپنے دنیاوی و مجازی محبوب کے لیے تو ایسا تصور باندھ لیتے ہیں کہ جی ہمیں تو اپنے محبوب سے اس قدر محبت ھے کہ تنہائی میں اس کے علاوہ کچھ نظر ہی نہیں آتا۔۔مومن کا مشہور شعر ھے

تم میرے پاس ھوتے ھو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ھوتا

لیکن کیا بات ھے کہ ھم اللہ رب العزت جو ہمارا حقیقی محبوب ھے،اس کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تلقین کے باوجود ایسا تصور ھم نہیں باندھتے۔۔۔حالانکہ اس کا اصل حق دار تو ہمارا یہی محبوب حقیقی ھے جو سارے ارض و سما کا مالک ھے۔۔ اور جو کچھ دنیا جہاں کی نعمتیں ہمیں میسر ہیں،وہ سب اسی کی دی ھوئی ہیں۔۔ تو جو اتنا بڑا محسن بھی ھو تو اس سے زیادہ تو کوئی اور محبوب ھونا ہی نہیں چاہیے اور ہماری سب سے زیادہ محبتوں کا حقدار وہی ھونا چاہیے۔۔اعتکاف کی خلوتیں اور تنہائیاں اختیار کرنے کا مقصد ہی یہی ھے کہ انسان اپنی خلوت میں غیر اللہ کے سارے خیالات اور تصورات چھوڑ دے اور صرف اللہ کی یاد اور تصور کو ہی اپنے دل و دماغ میں پیوست کردے۔۔اس حالت میں مخلوق سے انسان کو بالکل کٹ کر اجنبی ھو جانا چاہیے۔۔

جب اللہ ہی دنیا و آخرت میں ہر لمحے کام آنے والی واحد ہستی ھے تو پھر کیوں نہ سب سے زیادہ محبت اللہ ہی سے کی جائے

اعتکاف دراصل ہمیں یہی بھولا سبق یاد دلاتا ھے کہ مخلوق میں سے کوئی چاھے جتنا بھی آپ کا قریبی ھو،ماں باپ ھوں یا اولاد یا کوئی اور بہت قریبی یار دوست اور محسن،یہ سب رشتے فانی ہیں اور تمہیں کبھی نہ کبھی بالآخر چھوڑ جائیں گے۔۔بعض اوقات ایسے حالات پیدا ھو جاتے ہیں کہ یہ قریبی سے قریبی جان مال نچھاور کرنے والے بھی بے بس ھو جاتے ہیں اور انسان کی کسی خاص مشکل میں چاہنے اور کوشش کے باجود بھی کام نہیں آ سکتے تو ایسی ہر مشکل اور بیماری میں انسان کے کام آنے والی اور ہر دم موجود رہنے والی ذات تو صرف اللہ تبارک و تعالیٰ کی ہی ھوتی ھے۔۔۔

سیلابوں اور زلزلوں میں دیکھا کہ بڑے بڑے مالدار بھی مدد کے محتاج ھو گئے۔۔لوگوں کو زکوۃ و صدقات دینے والے خود امداد کے لیے لائنوں میں لگنے پہ مجبور ھو گئے ۔۔ نہ اپنی مدد کے قابل رھے نہ دوسروں کی ۔۔رھے نام اللہ کا۔۔ زندگی میں ایسی ایسی مشکلات اور لوگوں کی مخالفتیں پیش آتی ہیں کہ انسان یہ کہنے پہ مجبور ھو جاتا ھے کہ چاھے پوری دنیا میرے ساتھ نہیں یا میرے کام نہیں آ سکتی لیکن میرا اللہ تو میرے ساتھ ھے نا۔۔۔وہ میری مشکل ضرور حل کرے گا۔۔تو جب اللہ ہی دنیا و آخرت میں ہر لمحے کام آنے والی واحد ہستی ھے تو پھر کیوں نہ سب سے زیادہ محبت اللہ ہی سے کی جائے اور اللہ ہی کو اپنا محبوب،دوست اور ولی بنایا جائے۔۔اسی کو ہمیشہ یاد رکھا جائے۔۔۔آپ اس کے محبوب بن جائیں اور وہ آپ کا محبوب بن جائے۔۔حدیث قدسی میں ھے، اللہ اپنے ایسے ہی بندوں کے بارے بتاتے ہیں کہ جب بندہ نوافل کے ذریعے میرا تقرب حاصل کرتا ھے تو میں اس کا کان بن جاتا ھوں جس سے وہ سنتا ھے،اس کی آنکھ بن جاتا ھوں جس سے وہ دیکھتا ھے اور اس کا ہاتھ بن جاتا ھوں جس سے وہ پکڑتا ھے اور اس کا پاؤں بن جاتا ھوں جس سے وہ چلتا ھے (بخاری)

مقصد یہ نہیں کہ انسان معاذاللہ خدا بن جاتا ھے یا خدا نخواستہ "من تو شدم تو من شدی”(میں تو ھو گیا اور تو میں ھو گیا) والا معاملہ ھو جاتا ھے بلکہ مراد یہ ھے کہ انسان اللہ کے اتنے قریب ھو جاتا ھے اور اس کو اتنا محبوب بنا لیتا ھے کہ اللہ کی چاہت اور مرضی کے بغیر نہ سنتا ھے نہ دیکھتا ھے اور نہ اپنا کوئی قدم اس کی مرضی کے بغیر اٹھاتا ھے۔۔نہ کان لغو اور فحش باتیں سنتے ہیں نہ آنکھیں ایسی باتیں دیکھتی ہیں نہ ہاتھ اور پاؤں ایسے کاموں میں حصہ دار بنتے ہیں۔۔۔اللہ سے اس طرح کی قربت اعتکاف کی تنہائی میں کی جانے والی عبادت ہی انسان کو فراھم کرتی ھے۔۔۔
اور پھر یہ دیکھیں کہ اللہ کی بارگاہ میں رونے اور گڑگڑانے کی جو کیفیت تنہائی میں پیدا ھو سکتی ھے، دنیا کے شور و شغب اور رونقوں میں کیا ایسا تصور پیدا ھونے کی امید بھی رکھی جا سکتی ھے ۔حاشا وکلا۔۔
ایں خیال است و محال است و جنوں ۔۔۔۔۔

اعتکاف تنہائی میں کی جانے والے ایک خوبصورت عبادت

یہ سب کیفیات تو زیادہ سے زیادہ تنہائی میں ہی پیدا ھو سکتی ہیں۔۔۔اور تنہائی کا بہترین اور خوبصورت ترین محل یقینا اعتکاف ہی ھے۔۔۔یہیں پر اللہ سے ڈر کی وہ کیفیت پیدا ھوتی ھے جس کے نتیجے میں آنسو کا ایک ایسا قطرہ ہویدا ھوجاتا ھے جو اگرچہ بہت معمولی سا قطرہ ھوتا ھے لیکن جس طرح ایک معمولی ذرہ ایک خاص ماحول ،عمل اور پراسیس میں جا کر ایسا جوہری ذرہ اور ایٹم بم بن جاتا ھے جو ایک چھوٹا سا ذرہ ھو کر بھی پوری دنیا کو تباہ کرنے کے لیے کافی ھو جاتا ھے،اسی طرح تنہائی میں اللہ کے خوف سے آنکھ سے گرنے والا یہ قطرہ بھی ایسا جوہری قطرہ بن جاتا ھے جو جہنم کی ہولناک ترین آگ کو اپنے اوپر بجھانے اور حرام کرنے کے لیے کافی ھو جاتا ھے(ابن ماجہ) ۔۔۔اب ظاہر ھے یہ تنہائی کی عبادت اور اعتکاف ہی ھے جس میں خشیت و رقت کا امکان زیادہ سے زیادہ ھے اور ریاکاری کا بھی کم سے کم امکان ھوتا ھے۔۔۔

احادیث میں آتا ھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات کو اٹھ کر عبادت کرتے اور اس قدر روتے کہ جیسے ہنڈیا کےابلنے کی آواز ھو(نسائی) گویا ثابت ھوا ،یہ سب کیفیات زیادہ تر تنہائی کی عبادت کے نتیجے میں ہی پیدا ھوتی ہیں۔۔رات میں بھی تنہائی ھوتی ھے اور اعتکاف میں بھی تنہائی ہی کا ماحول ھوتا ھے_

اعتکاف۔۔۔ اصلاح نفس کا ایک بہترین موقع

اب مزید دیکھیں ،دنیا میں جو مجرم کافی سنگین جرائم کا مرتکب ھو تو ایسے مجرموں کو ایک سزا قید تنہائی کی بھی دی جاتی ھے۔۔۔جن مجرموں کو ایسی سزا دی جاتی ھے،تو یہ ایسی وحشتناک سزا ھوتی ھے کہ جس کی وجہ سے اکثر مجرم اپنی کافی اصلاح کر لیتے ہیں اور اللہ سے ان کا تعلق بھی اس تنہائی میں کافی مضبوط ھو جاتا ھے۔۔۔یہ تو وہ مجرم ھوتے ہیں جو دنیا کے قانون کے ہاتھوں پکڑے جاتے ہیں۔۔۔ورنہ ھم جو پکڑے نہیں جاتے،اللہ کے قانون کی رو سے کتنے بڑے مجرم ہیں،ہر شخص کو اپنے بارے خوب اندازہ ھے۔۔۔تو اگر ھم اپنے آپ کو خود ہی اللہ کا سنگین ترین مجرم سمجھ لیں جو حقیقتا ھم ہیں بھی اور اعتکاف کو ایک قید تنہائی کی طرح گزاریں تو ایسا اعتکاف ہی ان شاءاللہ ہماری اصلاح کا سب سے صحیح اور بہترین ذریعہ بن جائے گا۔۔۔
پھر یہ اعتکاف ہی کے تو اعجاز ہیں کہ انسان کا سارا وقت اس جگہ گزرتا ھے جسے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بہترین جگہ قرار دیا ھے یعنی مسجد میں ۔۔اس لیے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں مردوں سب کو مسجد میں ہی اعتکاف کرنے کا حکم دیا۔۔کیونکہ عورت بھی جب گھر میں اعتکاف کرے گی تو گھر والوں اور
بچوں کی قربت اس کی تنہائی میں بار بار حائل ھو گی ۔اسی تنہائی کی اہمیت کے پیش نظر ہی عورت کو بھی مسجد میں ہی اعتکاف کرنے کا حکم دیا گیا۔۔۔ مسجد کے مقابلے میں رونق و جلوت اور آلائشوں کی سب سے نمائندہ جگہ بازار ھے۔۔اس بناء پر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کو دنیا کی سب سے اچھی جگہ اور بازار کو دنیا کی سب سے بری جگہ قرار دیا(مسلم) تو جب ھم پورے دس دن دنیا کی سب سے اچھی جگہ مسجد میں مسلسل گزاریں گے اور بازار جیسی دنیا کی سب سے بری جگہ سے مسلسل دس دن دور رہیں گے تو ہمارے اوپر اللہ کی رحمتوں اور برکتوں کا کیا عالم ھو گا۔۔ھم خود ہی تصور کر لیں۔۔۔

تحریر: قاضی کاشف نیاز

لیلتہ القدر یعنی شب قدر کو واضح متعین کیوں نہیں کیا گیا ؟ ایک سوال اور اس کا جواب

Importance of Ramadan retreat

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.