ہمیں اگر انگریزی نہیں آتی تو کیا ہوا ، انگریزوں کو بھی اردو زبان نہیں آتی | عتیق گورایا کے قلم سے
اردو زبان بولنے والے سر اٹھا کر جئیں نہ کہ انگرزی نہ آنے کی وجہ سے احساس کمتری کا شکار ہوں۔ کہ انگریز ہماری زبان سے بھی اپنے الفاظ بناتے ہیں
اردو زبان دنیا کی دس بڑی زبانوں میں سے ایک ہے ۔ اور پوری دنیا میں تقریبا 170 ملین لوگ یہ زبان بولتے ہین ۔ لیکن نجانے کیوں ہم اردو بولنے والے اس احساس کمتری کا شکار رہتے ہیں حالانکہ اردو بھی دوسری زبانوں کی طرح ایک زبان ہے اور کافی مقبول زبان ہے۔ انگریزوں نے ایک عرصہ تک ہندوستان پر حکومت کی ہے اور اس کی ابتدا تجارتی تعلقات سے شروع ہوئی ۔ عرصہ ہوا ذہن میں سوال زیر گردش تھا کہ اردو زبان اور دیگر ہندوستانی زبانوں میں انگریزی کے الفاظ ملتے ہیں تو کیا انگریزی میں بھی اردو اور دیگر ہندوستانی زبان کے الفاظ ہوں گے ۔ یعنی کیا ہم نے ہی انگریزی کے الفاظ چرائے ہیں یا انگریزوں نے بھی کچھ اردو پر ہاتھ صاف کیا؟
ہوا کچھ یوں کہ جب انگریز پہلی مرتبہ ہندوستان میں آئے تو انھوں نے ایک مختلف تہذیب و تمدن ، مختلف حیوانات و حشرات الارض ، نباتات و جمادات وغیرہ سے واسطہ پڑا تو یہ سب چیزیں ان کے لیے انوکھی اور عجیب و غریب تھیں اور فطرتی طور پر وہ ان سب میں دل چسپی لینے لگے ۔ اردو زبان اور انگریزی لہجہ کے فرق کے باعث اُس وقت کے انگریزوں نے اردو الفاظ کو صوتی تغیر کے ساتھ تحریر کیا۔ جیسا کہ اجمیر شہر کو سیاح ولیم فنچ نے اسمیر Asmere لکھا ہے۔ بجرا (ایک قسم کی گول خوش نما کشتی ) جسے پہلی مرتبہ سیاح تھامس باوری نے Budgerow لکھا تھا ، بجرا کے متعلق نشتر خانقاہی کا شعر پڑھیے
آگے پہنچا جل کا دھارا بجرا پیچھے چھوٹ گیا
رستہ چھوڑ سواروں کو میں پیادہ پیچھے چھوٹ گیا
بالا خانے یا کوٹھی کے دروازے کے باہر کا سائبان، مکان کے سامنے بغیر دروازے کا کمرا جسے برآمدہ کہا جاتا ہے اور جس کے متعلق نور امروہوی کہتے ہیں کہ
مرے مکان کو غربت نے کر دیا تقسیم
برآمدہ تھا یہاں اس دکان سے پہلے
اردو زبان کے بعض الفاظ اس طرح سے انگریزی زبان میں مستعمل ہیں کہ گویا انگریزی زبان ان کی اصل ہے لیکن حقیقت مین ایسا نہیں
ہمارا اردو زبان کا لفظ برآمدہ انگریزی زبان میں 1711ء میں Veranda کی شکل میں مستعمل ہوا۔ ویسے برآمدہ لفظ بھی ہندوستان میں کسی اور طرف سے آیا ہے اور ہماری زبان کا ہی لفظ ہے۔ بیرا جو کہ انگریزی میں جاکر Bearer بن گیا ۔
سینکڑوں میل کی مسافت اور سات سمندر پار کرکے سفر کی صعوبتیں جھیلتے ہندوستانی اور اردو زبان کے بعض الفاظ اس طرح سے انگریزی زبان میں مستعمل ہیں کہ گویا انگریزی زبان ان کی اصل ہے۔ لیکن اگر انھیں بغور دیکھا جائے اور مطالعہ کیا جائے تو عقدہ یہ کھلتا ہے کہ ان الفاظ کا تعلق اردو زبان یانہندوستانی زبانوں سے ہے جیسا کہ ڈاکٹر عبد الرحمٰن لکھتے ہیں کہ لفظ Compound کی اصل دراوڑی خاندان کی زبان ملیالم سے ہے ، ملیالم میں یہ لفظ Compong ہے اور 1679ء میں یہ لفظ انگریزی زبان میں Compound کی شکل میں داخل ہوا ۔
اب آتے ہیں مشہور زمانہ پھل آم کی طرف کہ ہمارے ملتان کے دوست اس معاملے میں بڑے بے وفا ثابت ہوئے ہیں۔ آم کا موسم شروع ہوتے ہی رابطے کم کردیتے ہیں کہ رابطوں میں باقاعدگی سے تکلفات ختم ہو جاتے ہیں اور ایک دوسرے سے چیز مانگنے میں جھجک محسوس نہیں ہوتی۔ بہرحال دوستوں سے تو پھر معاملات چلتے رہیں گے ۔
مرزا غالب کا ایک مشہور واقعہ ہے کہ "ایک روز مرزا کے دوست حکیم رضی الدین خان صاحب جن کو آم پسند نہیں تھے، مرزا صاحب کے مکان پر آئے۔ دونوں دوست برآمدے میں بیٹھ کر باتیں کرنے لگے۔ اتفاق سے ایک کمہار اپنے گدھے لیے سامنے سےگزرا۔ زمین پر آم کے چھلکے پڑے تھے۔ گدھے نے ان کو سونگھا اور چھوڑ کر آگے بڑھ گیا۔ حکیم صاحب نے جھٹ سے مرزا صاحب سے کہا، ’’دیکھئے! آم ایسی چیز ہے جسے گدھا بھی نہیں کھاتا۔‘‘ مرزا صاحب فوراً بولے، ’’بے شک گدھا نہیں کھاتا۔‘‘”
بات کہاں سے شروع ہوئی اور کدھر کو جانکلی ۔ لفظ آم بھی دراوڑی الاصل ہے ملیالم زبان میں Mangga اور تامل زبان میں Mankey ہے ۔ انگریزی میں اس کا ذکر سولہویں صدی میں ملتا ہے اور پہلی بار ولیم فنچ سیاح نے استعمال کیا تھا ۔ مرہٹی زبان کا ایک لفظ Mongoose بھی ہے جس کا مطلب نیولا ہوتا ہے ۔ یہ لفظ سترہویں صدی میں انگریزی زبان میں مستعمل ہوا ۔
آم کے متعلق کیا خوب ساغر خیامی نے کہا ہے کہ
آم تیری یہ خوش نصیبی ہے
ورنہ لنگڑوں پہ کون مرتا ہے
تحریر : عتیق گورایا