اغیار منافق تو کبھی یار منافق آئے ہیں مرے سامنے ہر بار منافق اُس قوم کا انجام تو معلوم ہے سب کو جس قوم کے لوگوں کا ہو سردار منافق
urdu poetry dosti
بدلے ہیں رفتہ رفتہ مرے یار کس لیے ؟ آئی مرے نصیب میں یہ ہار کس لئے ؟ کیونکر معاہدے سے زباں پھیر لی گئی ؟ نفرت کے بیچ لایا
کسی کے ساتھ کبھی میں بُرا نہیں کرتا بڑھا چڑھا کے بشر کو خُدا نہیں کرتا خدا کے رحم و کرم سے بلائیں ٹلتی ہیں وگرنہ آدمی دنیا میں کیا
ائے ہمدم مرے حرفِ اعجاز سن صبر کرنے والوں کا یہ راز سن ہر اک شب کی قسمت میں ہے اک سحر وہ نصر من اللہ کی آواز سن
بہت سے لفظ ایسے ہیں جو دل پہ بوجھ ہوتے ہیں زباں پر آ بھی جائیں تو زباں کچھ کہہ نہیں پاتی اگرچہ ہم سبھی محسوس کرتے ہیں زمانے کے
ابھی تو بدلا چمن کا موسم ابھی تو بارش کی ابتداء ہے ابھی تو ساقی ذرا ہے سنبھلا ابھی نوازش کی ابتداء ہے یقیں کسی پہ بھی آج کرنا محال
جب سوچ ہماری ایک نہیں یہ عہد نبھائیں گے کیسے آنکھوں میں اگرچہ آنسو ہیں پر دل کو منائیں گے کیسے میں تلخ رویے جھیل بھی لوں میں ہنس