ستم شعار زمانے نے حوصلے نہ دیے رہِ سیاہ پہ پھینکا ، مگر دیے نہ دیے بہت سے واقعے ایسے گزر گئے ہیں کہ جو ترے جمال کی عادت نے
sad urdu poetry
شکیب و صبر کے پیکر بھی آزمائے گئے جہاں میں آئے پیمبر بھی آزمائے گئے گزشتہ رات فقط اک مرا چراغ نہیں نُجُوم و ماہِ مُنوّر بھی آزمائے گئے
اتنے بڑے جہان میں تنہا رہا ہوں میں تنہاٸ کے دکھوں سے شناسا رہا ہوں میں مانوس ہو ہی جاٶں گا خلوت سے ایک دن ہر وقت اس خیال میں
جب رویوں میں بدلاؤ آ نے لگا لمحہ لمحہ ہمیں خوں رُلانے لگا پھیر کر چل دیا روخ وہ اوروں کے سنگ دعوۂِ عشق جو تھا ٹِھکانے لگا میری حالت
درد نعمت کی طرح زخم خزانوں جیسے اس لئے نوحے بھی گاۓ ہیں ترانوں جیسے ہم جنوں والے ہنسا کرتے ہیں گھاٹے کھا کر كفِ افسوس نہیں مَلتے سیانوں جیسے
اک دن کا ہم سفر بھی وہ کتنا عجیب تھا میرا اور اس کا ربط بھی کتنا غریب تھا اک بار مل کے مجھ سے وہ یہ کہہ کے چل
اگرچہ ہوں تو سہی پاش پاش میں درویش عجب ہے دکھتا نہیں بود و باش میں درویش ذرا دماغ میں، دل میں، خیال میں ہی سہی خدایا آ کہ ہوں
بکھر گیا ہوں دوبارہ سِمٹ نہیں سکتا شکستہ حال مسافر ہوں ڈٹ نہیں سکتا مرے دیار میں ہمدرد ہیں مگر تجھ سا کسی کو اپنا سمجھ کر لِپٹ نہیں سکتا
قہقہے میں اداسی چھپاتا ہوں میں کوئی پوچھے تو خوش ہوں بتاتا ہوں میں سب سے ہنس کر ملے سب سے باتیں کرے عادتِ یار پر مسکراتا ہوں میں
موج ہوا کا ذائقہ چکھتے ہی بجھ گئے سہمے چراغ وقت سے پہلے ہی بجھ گئے کل شب مرا جُھکاؤ چراغوں کی سمت تھا فورا انہیں جلا لیا جیسے ہی
Load More