خوشی کا ایک لمحہ اورغموں کا اک زمانہ کیوں
میں اک لا چار بندہ ہوں مجھے اتنا ستانا کیوں
محبت کے لبادے میں جفا تم نے جو کی ہم سے
محبت کر نہیں سکتے تو کر نے کا بہانہ کیوں
مرے اندر بھی اک دلکش نگر آباد رہتا ہے
مصائب کا اداسی کا بھنور آباد رہتا ہے
کسی کے طنز کرنے سے پریشاں ہم نہیں ہوتے
ہزاروں زخم کھا کر بھی جگر آباد رہتا ہے
امیروں کو حویلی میں بٹھا دیتی ہے بس قسمت
غریبوں کے گھروں میں پر ہنر آباد رہتا…
اک پرندہ اُڑ چلا آندھی کا جھونکا دیکھ کر
کوئی پیاسا مر گیا پانی کو گہرا دیکھ کر
کون مظلوموں کی ہمدردی کرے گا اب بھلا
بِک گئے ہمدرد بھی ظالم کا چہرہ دیکھ کر
مِل رہی ہے چھت مری قاتل کے گھر کے بام سے
ڈر گئے تھے میرے مہماں خون بہتا…