یہ محمد کا جو مدینہ ہے یہ تو اَنمول اک نگینہ ہے اور باتیں فضول باتیں ہیں آپ کی بات ہی خزینہ ہے
حیات عبداللہ
اب دِکھاتا نہیں وہ ایسی کرامات مجھے اور عطا کرتا نہیں شرفِ ملاقات مجھے میرے دل سے نہیں جاتے نہ کبھی جائیں گے مار ڈالیں گے جدائی کے یہ اثرات
زندگی بھر یہ کرامات نہیں ہو سکتی اب کبھی اس سے ملاقات نہیں ہو سکتی پیار کے کھیل میں چال ایسی چلی ہے اس نے ہجر کی ختم کبھی رات
غموں کے گرداب میں گِھرا ہوں، مجھے بچا لے مرے خدایا مَیں تھک چکا ہوں، مجھے بچا لے کبھی تھا جس کو مَیں دل سے پیارا، بہت ہی پیارا اب
عشق ہی کافی نہیں دیوانگی کے دشت میں علم و حکمت بھی ہے لازم عاشقی کے دشت میں واپسی کا اب کوئی امکان ہی باقی نہیں دُور اتنا آ گیا
فیصلہ جب اٹل نہیں ہوتا مسئلہ کوئی حل نہیں ہوتا یاد رکھنا مری نصیحت کو پیار کا کچھ بدل نہیں ہوتا ان مسائل میں آ کے الجھا ہوں جن مسائل
دشتِ فرقت میں گر چلو گے الگ شعر ایسے ہی کچھ کہو گے الگ شدتِ عشق سے یہ لگتا ہے جب کبھی تم مرے، مرو گے الگ بات اک خاص
آفتابِ مبیں محمد ہیں ماہ تابِ حَسیں محمد ہیں وہ کسی اور کے نہیں طالب دل میں جن کے مکیں محمد ہیں اسوہ جن کا نجات کا باعث وہ کوئی