جن دلوں پر انا کے تالے ہیں کب کسی کے وہ ہونے والے ہیں تھی خبر ہم کو یار ڈس لیں گے پھر بھی وہ ناگ ہم نے پالے ہیں
بابر علی برق
پھر سے یہ محکوم ملت ہو گئی ہاۓ یارو کیا قیامت ہو گئی بالیقیں سچ کی علامت ہو گئ بات جو سامانِ عبرت ہو گئی
سمجھ رہے ہیں گنہگار سب جہاں والے زمین تنگ نہ ہو مجھ پہ آسماں والے چلے ہیں جب سے اٹھا کر بغاوتوں کے علم کھٹک رہے ہیں زمانے کو ہم
مرغوب یوں ہوئی ہمیں بابر اداۓ یار مانگا نہ کچھ خدا سے کبھی ماسواۓ یار ہم ہی نہیں جہاں میں فقط مبتلاۓ یار پھرتے ہیں بادشاہ بھی بن کر گداۓ
حق جتانے کے لئے کچھ آبلہ پائی تو ہو کم سے کم اِن ریگزاروں سے شناسائی تو ہو بیٹھنے دو یار کے پہلو میں اے چارہ گرو مجھ پہ بھی
کٹ گئی ہے زندگانی ہم سفر کی آس میں مر ہی جائیں گے کسی دن چارہ گر کی آس میں طاقت پرواز جب سے چھین لی صیاد نے رینگتے رہتے
وہ جو تھا پیکرِ علم و فن اٹھ گیا دہر سے آج خیبر شکن اٹھ گیا علم و حکمت میں ایسا کوئی بھی نہیں دیدہ ور ان کے جیسا کوئی
ان پہ کھلتے ہیں سبھی ابواب آسانی کے ساتھ۔ جھیلتے ہیں جو حوادث خندہ پیشانی کے ساتھ۔ فاقَہ مَستی میں عَیاں ہوتے ہیں اَسرارِ خُودی عِلم کا رِشتَہ جُڑا ہے
راس آتی نہیں انہیں دنیا جن کی آنکھوں میں ہم اترتے ہیں دل کی مسند سے حضرت واعظ رفتہ رفتہ صنم اترتے ہیں ذہن پر جو سوار ہو جائیں شعر
ڈال دے وہ مہرباں کب زندگی کشکول میں کاسہءِ امید رکھنا ہر گھڑی کشکول میں لوٹتے ہیں گھر کو جب حالات کے مارے فقیر بھر کے لاتے ہیں فقط شرمندگی
Load More