کوئی جو بھی کہے، تم مان لو گے؟ بتاؤ اب میری، کیا جان لو گے؟ میں جتنے روپ بدلوں گا، یقیناً مجھے ہر بار تم پہچان لو گے۔
ایم راقم نقشبندی
میرے نصیب سنورنے لگے مدینے میں بچھڑ گئے ہیں سبھی غم،مرے مدینے میں مرے نصیب تو دیکھو،جہان والو تم بلا رہے ہیں نبی خود مجھے مدینے میں
یومِ مزدور ہے، مزدور کو چھٹی ہی نہیں سچ یہ مشہور ہے، مزدور کو چھٹی ہی نہیں کیسے دوں اس کو مبارک، میں خوشی کے دن کی دیکھ رنجور ہے،
تیرے ہونٹوں پہ مرے نام کی تکرار ہے کیوں گر نہیں پیار، تو پھر پیار کا اظہار ہے کیوں ساتھ چلنے کا ہے وعدہ تو سنبھل کر چلنا دامن خاک
رب کا خوب احسان ہے یہ... آمدِ رمضان ہے رحمتوں کا مان ہے یہ.... آمدِ رمضان ہے۔ بخشش و عفو و کرم کی ہیں صدائیں برملا ہو رہا اعلان ہے
میرے عکس پہ مرتے ہیں کچھ دیوانے میری شمع سے روشن ہیں کچھ پروانے میں وہ گل ہوں جس سے خفا ہے مالی بھی مجھ سے خوشبو پاتے ہیں کچھ
اپنوں نے ساتھ چھوڑا بغاوت میں آگئے میرے حریف میری حمایت میں آگئے میں نے سنبھال رَکَّھے تھے مرجھائے چند پھول پی کر وہ جامِ اشک بشاشت میں آگئے چاہا
بے وفاؤں سے بے وفائی کرو۔ پارساؤں سے پارسائی کرو۔ پال رکھے ہیں جو صَنَم دل میں۔ ہائے اِس دل کی اب صفائی کرو۔ چاک دامن ہے دوستو میرا۔ مجھ
میری بے کار محبت کو یہ اعزاز ملا دیکھ لیتا ہوں ترے عکس میں تصویر اپنی میں فقط جملہ و الفاظ کی تکرار بنا تجھ کو دیکھوں تو سمجھ آتی
ہم نے کلثوم و رقیہ سے یہی جانا ہے لاڈلے سرورِ کونین کے عثمان رہے بات جب شرم و حیا اور سخا کی آئی میرا ایمان ہے عثمان ہی ذیشان