ارضِ بنگال سے یہ صدا آ گئی میرے گلشن میں بادِ صبا آ گئی خونِ طلبا کی خوشبو سے مہکا چمن سوچا انجام تھا، ابتدا آ گئی دشمنوں کے ستم
انقلاب شاعری
تجھ کو اوقات بتاؤں گا کسی دن میں بھی تیرا گھر بار جلاؤں گا کسی دن میں بھی تو نے جس طرح مری روح کو تڑپایا ہے تجھ کو اس
پھر سے یہ محکوم ملت ہو گئی ہاۓ یارو کیا قیامت ہو گئی بالیقیں سچ کی علامت ہو گئ بات جو سامانِ عبرت ہو گئی
قریبی رشتوں میں پیدا دراڑ کرتے رہے سیاسی لوگ تھے بہلا کے وار کرتے رہے وطن کے نام پہ ہم جا نثار کرتے رہے وہ ہم پہ پھر بھی کہاں
وطن والو یہ سب مایوسیاں دل سے نکالو تم قدم مضبوط کر کے دوسروں کو بھی سنبھالو تم حوادث لاکھ حائل ہوں جہاں بھر کی ہو سنگینی جواں جذبے سے
دکھی ہے پاک نبیوں کی سرزمیں لوگو کہاں گئے میری امت کے سب امیں لوگو یروشلم سے جو ٹکرائیں بن کے ایوبی یہ اقصی تکتی ہے ایسے مجاہدیں لوگو بہا
راس آتی نہیں انہیں دنیا جن کی آنکھوں میں ہم اترتے ہیں دل کی مسند سے حضرت واعظ رفتہ رفتہ صنم اترتے ہیں ذہن پر جو سوار ہو جائیں شعر
ہو عشق میں کسی کا نہ یا رب خراب خون بہتر ہے آدمی کا ہو وقت شباب خون پہلے تو تھی تمیز پہ دور_جدید میں احساس مٹ چکا ہے
آ ستم گر زور اپنا آزمانے کے لیے آگئے میدان میں ہم جاں لٹانے کے لیے خود سے قاتل آگئے ہم تیرے خنجر کے تَلے اپنے خوں سے زینتِ مَقتل
جدا ہم ہو گئے لیکن محبت کم نہیں ہو گی کبھی مکار بنیے سے عداوت کم نہیں ہو گی 16 دسمبر 1971 کا تلخ دن جب پاکستان کا ایک بازو
Load More