قربانی کا فلسفہ| حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت قرب الہی کا ذریعہ مگر کیسے؟
قربانی اور قرب قریب قریب الفاظ ہیں اور ان میں وجہ قرابت قربت کا حصول ہے۔ کیونکہ جب کسی کو تقرب حاصل ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد اس کا مقام اور مرتبہ بہتر سے بہترین ہو جاتا ہے۔ اس کے نخرے اٹھائے جاتے ہیں، اس کی باتیں سنیں اور برداشت کی جاتی ہیں، اس کو خوش رکھنے والے کام کیے جاتے ہیں۔ کیونکہ بوجہ تقرب وہ قربت حاصل کر چکا ہوتا ہے اور قریب ہو چکا ہوتا ہے۔ یہی تقرب قربت قرابت داری بندے اور اس کے مالک کے درمیان باہمی خوشگوار تعلقات کی بنیاد ثابت ہوتی ہے۔
یہ جو مسلمانوں سے سال میں ایک بار جانور کی قربانی مانگی گئی ہے تو یہ بھی حصولِ تقرب کے لیے ہے۔ کیونکہ فلسفہ قربانی دیکھیں تو اس کی بنیاد امام الانبیاء جد الانبیاء حضرت ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام سے شروع ہوتی ہے اگر مطلق قربانی یعنی کچھ بھی اللہ تعالیٰ کے لیے قربان کر دینا دیکھا جائے تو یہ ہر چیز میں موجود ہے۔ صرف جانور کی قربانی نہیں بلکہ ہر وہ چیز جو راہ ہدایت میں رکاوٹ بن رہی ہو، شریعت اور اسلام کی راہ میں رخنہ ڈال رہی ہو، عبادت اور تعلق باللہ میں دراڑیں ڈال رہی ہو، ہر چیز کو ترک کر دینا،اسے چھوڑ دینا، اس کی قربانی دے دینا لازم ہے۔ کیونکہ جب تک اس کی قربانی نہیں دی جائے گی تقرب حاصل ہونا ناممکن ہے۔
اللہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے بیٹے کی قربانی سے پہلے پہلے بہت ساری اور بھی قربانیاں کروائیں
اس لیے تو اللہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے بیٹے کی قربانی سے پہلے پہلے بہت ساری اور بھی قربانیاں کروائیں۔ سب سے پہلے والد کو اللہ کے لیے چھوڑ دینا، پھر اپنے گھر بار کو چھوڑ دینا، پھر محلے و رشتہ داریاں و قرابت داریاں قربان کردینا، پھر اسی طرح آگ کے الاؤ کو قبول کر لینا اور اللہ کی خاطر اس میں پھینک دیا جانا اس طرح کے بے شمار دیگر امور نظر آ جائیں گے۔
پھر کئی سالوں بعد اولاد نرینہ سے رب نے نوازا چھوٹے بچے کو دودھ پیتے لخت جگر کو اس کی والدہ سمیت بے آب و گیاہ وادی میں اللہ کے حکم پر چھوڑ دینا پھر اس کے بعد جب بچہ جوان ہوتا ہے تو اسے آ کے رب کا حکم بتلانا سنانا اور چھری کے سامنے لیٹنے پر آمادہ کرنا اور قربانی دینے کے لیے تیار ہو جانا۔
تو یہ قربانی کا مقصد ہے قرآن کی آیت کا مفہوم ہے کہ تم جو جانور اللہ کے راستے میں ذبح کرتے ہو نہ تو اللہ تعالی کو اس کا خون پہنچتا ہے اور نہ ہی اس کا گوشت لیکن اللہ تعالی کو تمہارے دل کی کیفیت تقوی پہنچتی ہے۔ اس لیے اپنے دلوں کو اللہ تعالی کے لیے خالص کر لیں اور قربانی کے عظیم عمل سے رب کا قرب حاصل کریں تاکہ رب ہمیں اپنے قرب کے سایہ میں اپنی نعمتوں والی جنتوں میں داخل فرما دے۔ آمین
تحریر: حبیب اللہ خان پاندہ
حضرت ابراہیم علیہ السلام | قربانیوں کی لازوال داستان
دین کی راہوں میں قربانی نہیں ہے رائیگاں ۔۔۔ چاہتے ہو جنتیں تو وار دو یہ جسم و جاں