ہوتے اگر جو شیخ خرد مند شہر کے | انقلابی اشعار
ہوتے اگر جو شیخ خرد مند شہر کے
دیتے نہ جام بھر کے فقیروں کو زہر کے
لوگوں نے لاش لاش کا غوغا کیا تھا جب
دیکھا تو میں پڑا تھا کنارے پہ نہر کے
چنگیز خاں کی نسل کا اب تذکرہ کہاں
بیٹھے ہوئے ہیں تخت پہ فرعون دہر کے
یہ خواب تھے کہ جن کو گھرندوں کی شکل دی
ساحل پہ ہو گئے ہیں حوالے جو لہر کے
یوں حکمرانِ وقت کے حکموں سے ڈر گئے
جیسے خدا نے دے دئیے پیغام قہر کے
ہیں شترِ بے مہار کی مانند بے مہار
کچھ خواب میری آنکھ میں رنگین پہر کے
آدر سمجھ لیا تھا جسے سائبانِ دشت
اپنا لئے ہیں اُس نے بھی انداز مہر کے
ہوتے اگر جو شیخ خرد مند شہر کے
دیتے نہ جام بھر کے فقیروں کو زہر کے
اگر آپ مزید انقلابی شاعری پڑھنا چاہتے ہیں تو یہ لازمی دیکھیں
انقلابی شخص نذرِ قید ہو سکتا ہے ، پر۔۔۔۔ کون باندھے گا شعوری سوچ کو زنجیر سے؟