ہوتے اگر جو شیخ خرد مند شہر کے | انقلابی اشعار

2 102

ہوتے اگر جو شیخ خرد مند شہر کے
دیتے نہ جام بھر کے فقیروں کو زہر کے

لوگوں نے لاش لاش کا غوغا کیا تھا جب
دیکھا تو میں پڑا تھا کنارے پہ نہر کے

چنگیز خاں کی نسل کا اب تذکرہ کہاں
بیٹھے ہوئے ہیں تخت پہ فرعون دہر کے

یہ خواب تھے کہ جن کو گھرندوں کی شکل دی
ساحل پہ ہو گئے ہیں حوالے جو لہر کے

یوں حکمرانِ وقت کے حکموں سے ڈر گئے
جیسے خدا نے دے دئیے پیغام قہر کے

ہیں شترِ بے مہار کی مانند بے مہار
کچھ خواب میری آنکھ میں رنگین پہر کے

آدر سمجھ لیا تھا جسے سائبانِ دشت
اپنا لئے ہیں اُس نے بھی انداز مہر کے

ہوتے اگر جو شیخ خرد مند شہر کے
دیتے نہ جام بھر کے فقیروں کو زہر کے

شاعری: بلال آدر

اگر آپ مزید انقلابی شاعری پڑھنا چاہتے ہیں تو یہ لازمی دیکھیں

انقلابی شخص نذرِ قید ہو سکتا ہے ، پر۔۔۔۔ کون باندھے گا شعوری سوچ کو زنجیر سے؟

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.