ہوتے اگر جو شیخ خرد مند شہر کے | انقلابی اشعار
ہوتے اگر جو شیخ خرد مند شہر کے
دیتے نہ جام بھر کے فقیروں کو زہر کے
لوگوں نے لاش لاش کا غوغا کیا تھا جب
دیکھا تو میں پڑا تھا کنارے پہ نہر کے
چنگیز خاں کی نسل کا اب تذکرہ کہاں
بیٹھے ہوئے ہیں تخت پہ فرعون دہر کے
یہ خواب تھے کہ جن کو گھرندوں کی شکل دی
ساحل پہ ہو گئے ہیں حوالے جو لہر کے
یوں حکمرانِ وقت کے حکموں سے ڈر گئے
جیسے خدا نے دے دئیے پیغام قہر کے
ہیں شترِ بے مہار کی مانند بے مہار
کچھ خواب میری آنکھ میں رنگین پہر کے
آدر سمجھ لیا تھا جسے سائبانِ دشت
اپنا لئے ہیں اُس نے بھی انداز مہر کے
ہوتے اگر جو شیخ خرد مند شہر کے
دیتے نہ جام بھر کے فقیروں کو زہر کے
اگر آپ مزید انقلابی شاعری پڑھنا چاہتے ہیں تو یہ لازمی دیکھیں
انقلابی شخص نذرِ قید ہو سکتا ہے ، پر۔۔۔۔ کون باندھے گا شعوری سوچ کو زنجیر سے؟
Wow, superb blog format! How long have you been blogging for?
you make running a blog look easy. The total look of your
website is excellent, as well as the content material!
You can see similar: sklep internetowy and here ecommerce
These are in fact wonderful ideas in on the topic of blogging.
You have touched some good factors here.
Any way keep up wrinting. I saw similar here: ecommerce and also here: sklep