دربدر ڈھونڈا تجھے اے ہمسفر جانے کے بعد
زندگانی مشکلوں میں کی بسر جانے کے بعد
خوف ہے اس بات کا مجھ کو فقط میرے عزیز
کھو نہ جاۓ عصمتِ دستار سَر جانے کے بعد
گاڑ دے جیسے شکنجے موت آدم ذات پر
رات یوں قابض ہے امیدِ سحر جانے بعد
کاش مجھ کو لے چلے سُوۓ حرم، میرا نصیب
لوٹ کر آؤں نہ واپس میں اُدھر جانے کے بعد
ڈھونڈ کر لاؤں کہاں سے وہ چمکتے ماہتاب
دہر یہ سنسان ہے جن کے گزر جانے کے بعد
آسماں ہوں شفقتوں کا یا کہ پھر بارِ گراں
جان جاؤ گے مِرے لختِ جگر جانے کے بعد
خواہشِ دل مر گئی تو حضرتِ صیاد نے
کر دیا آزاد مجھ کو بال و پَر جانے کے بعد
ہے تخلص “برق” اس کا نام ہے بابر علی
جس نے پایا ہے نمو اپنے ہی مر جانے کے بعد
دربدر ڈھونڈا تجھے اے ہمسفر جانے کے بعد
زندگانی مشکلوں میں کی بسر جانے کے بعد
شاعری : بابر علی برق