لباس جسم کی زینت اور شخصیت کا آئینہ ہے | لباس اور اسلامی لباس پر ایک تحریر

Clothing is a beauty of body and mirror of personality

0 31

لباس انسانی جسم کا وہ حصہ ہے جس کے ساتھ انسانی جسم کو زینت اور وقار حاصل ہے اور جس کے بغیر انسانی جسم معیوب ہے. ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ ایسا لباس پہنے جو دوسروں کو متاثر کرے… اس کی شخصیت کو خوبصورتی اور وقار عطا کرے. اور اس لباس میں دیکھنے پر کوئی بندہ اس کی تعریف نہ بھی کرے تو کم از کم تنقید نہ کرے.

یقین مانیں غربت اور معاشی کمزوری کے علاوہ اور کوئی وجہ ایسی نہیں کہ ایک انسان اپنی پسند کا لباس پہننے سے گریز کرے. ہر انسان اپنی پسند کا ہی لباس خریدتا اور پہنتا ہے. اور اگر میں اپنی بات کروں تو مجھے ذاتی طور پر پینٹ کوٹ ، ٹراوزر شرٹ، دھوتی  بنیان کی نسبت شلوار قمیض زیادہ پسند ہے ۔ اس وجہ سے نہیں کہ شلوار قمیض سستا لباس ہے اور باقی مہنگے۔ اس وجہ سے بھی نہین کہ شلوار قمیض اسلامی لباس ہین اور باقی غیر اسلامی۔ بلکہ اس لئے کہ شلوار قمیض پہن کر میں جسمانی طورر پر اپنے آپ کو ریلیکس محسوس کرتا ہوں چاہے تنہائی میں ہوں ، چاہے اپنے گھر والوں کے درمیانہوں ، چاپے اپنے دوستوں کے درمیاں۔

اب یہاں پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک انسان آخر خود مختلف لباس پہننے کے باوجود کیوں دوسروں کے لباس کو تنقید کا نشانہ بناتا ہے تو اس کا صاف مطلب یہی ہے کہ جو تنقید کرتا ہے اسے دراصل اس بندے کی شخصیت کے مطابق یا اس بندے کے اردگرد کے ماحول کے مطابق وہ لباس معیوب نظر آ رہا ہوتا ہے. وہ مشہور بات ہے ناں کہ جیسا دیس ویسا بھیس. اور یہ بات سو فیصد سچ ہے. آپ جس دیس میں ہیں جس معاشرے میں ہیں اور جس ماحول میں ہیں اسی ماحول کا لباس پہنیں گے تو ٹھیک ورنہ تماشا بن جائیں گے.

میں آپ کو اس کی مثال دیتا ہوں کہ اگر پاکستان میں آج کوئی عربی لباس پہن کر (سر تا پا لمبی قمیض ) بازاروں میں گھومنا شروع کر دے یا کوئی سر پر پگڑی کے نام پر عثمانی ترکی ٹوپی (لمبی اور چوڑی سفید پگڑی ) پہن کر گلیوں میں چلنا شروع کر دے تو لوگوں نے اس کا مذاق اڑانا شروع کر دینا ہے. بالکل اسی طرح اگر کوئی بندہ کسی شہر میں کرکٹ والے شوز اور بیٹسمین والے پیڈ ہیلمٹ چڑھا کر چلنا شروع کر دے تو وہ بھی مذاق بن جائے گا. دیہات میں پینٹ کوٹ پہننے والے کے پیچھے کتے لگ جاتے ہیں اور شہر میں دھوتی پہننے والے سہمے سہمے رہتے ہیں کہ کسی اوباش سے ٹاکرا نہ ہو جائے.

تو پھر آخر اچھے اور برے لباس کا کیا معیار ہے؟ کون سا لباس بہترین ہے اور کون سا معیوب؟ یقین کریں کوئی بھی لباس ایسا نہیں جسے بہترین کہا جائے کیونکہ وقت، معاشرے، ملک اور ثقافت کے لحاظ سے لباس اتنی تیزی سے بدلتا ہے کہ آپ بہترین تلاش کر ہی نہیں سکتے. آپ کسی سے موازنہ کر ہی نہیں سکتے.

لباس اسلام کی نظر میں

دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر ہم مرد کے لباس کے حوالے سے اسلامی نقطہ نظر جاننے کی کوشش کریں تو تمام احادیث کو یکجا کرنے کے بعد یہی سمجھ آتی ہے کہ گھٹنے سے ناف تک ستر ڈھانپنا ضروری ہے اور کچھ نہیں. ایک کپڑے تک میں نماز پڑھنے کی احادیث موجود ہیں تو اور کیا کہا جائے…؟

اس سے زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر آج ہم پاکستان میں بیٹھ کر سر سے لیکر پاؤں تک اپنے لباس پر غور کریں تو ایک بھی ایسا لباس کا حصہ نہیں جو اللہ کے نبی نے پہنا ہو. جوتے مختلف، پانچے مختلف شلوار مختلف، آزار بند مختلف، قمیض مختلف، قمیض کے بٹن کالر مختلف، اور ٹوپی بھی مختلف…!

وہ جو کالر بین کی ممانعت پر آپ   سنتے ہیں ان سے کہیں زیادہ جاندار وہ لطیفہ ہے جس میں مولانا صاحب سے پوچھا گیا کہ پینٹ شرٹ پہننے والے کی نماز ہو جاتی ہے تو جواب ملا
"پینٹ شرٹ والے کی تو ہو جاتی ہے لیکن اس سے پیچھے والے کی نہیں ہوتی.” یقین کریں یہ ایک فتویٰ نہیں لطیفہ ہے. اور وہ اس طرح کہ پینٹ شرٹ والا تو جس لباس میں اپنے دنیاوی آقا کے پاس جانا بہتر سمجھتا ہے اسی لباس میں اپنے اصل آقا کے دربار میں پہنچ گیا. اب وہ جانے اور اس کا آقا جانے.
جو پیچھے والا ہے اسے اگر لگتا ہے کہ پینٹ شرٹ والے کے پیچھے کھڑے ہو کر اگر اس کے رکوع اور سجدے میں میرے خیالات میں خلل کی وجہ سے میری نماز کے رد ہونے کا خطرہ ہے تو اسے کس نے کہا کہ وہ پینٹ شرٹ والے کے پیچھے نماز شروع کرے…؟ وہ تھوڑا دائیں بائیں ہو کر نماز پڑھ لے اسے کسی نے کچھ پوچھنا ہے کیا ؟

بہرحال خلاصہ کلام یہ ہے کہ ستر ڈھانپنے کی شرط کے بعد لباس وہی ہے جو آپ کے ماحول کے مطابق ہے. آپ نے دیکھا ہو گا صرف پاکستان میں ہی ۔۔۔۔ سکول کالج میں جانے کا  لباس مختلف… مسجد کا لباس مختلف…. کھیلنے کا لباس مختلف اور سونے کا لباس مختلف ہے. لیکن اگر کوئی مسجد میں سکول کالج والا لباس پہن کر ا جاے یا سوتے وقت کرکٹ والے شوز ہیلمٹ پہن لے تو معیوب ہی لگے گا.

آخری بات…! اگر کوئی بندہ جان بوجھ کر ایسے کام کرتا ہے یعنی ایسا لباس پہن کر لوگوں کے درمیان آتا ہے جو اس کی شخصیت سے برعکس لگے  یا وہ سوشل میڈیا پر اپنی ایسی تصاویر اپ لوڈ کرتا ہے جسے دیکھ کو لوگوں کو تعجب ہو  تو اس کا مطلب وہ جان بوجھ کر یہ تاثر دینا چاہتا ہے کہ میں دونوں لباس پسند کرتا ہوں یا میری شخصیت کو بس ایک لباس اور فقط ایک  لباس کے تقاضوں کا پابند نہ سمجھا جائے.

مثلاً شیخ قاری راشد العفاسی اگر مسجد میں نماز کی امامت  کے وقت یہی لباس پہن کر آ جائیں جو بازار کے حوالے سے وائرل ہے تو لازماً تنقید کا نشانہ بنیں گے. لیکن جب وہ دونوں مختلف لباس اپنے اپنے مقام پر پہن سکتے ہیں تو اس کا مطلب یہی ہے کہ وہ اتنی اخلاقی جرات رکھتے ہیں کہ اگر کوئی انہیں دوسرے لباس میں دیکھ کر تعجب کرے تو وہ اس کا مناسب جواب دے سکیں. اور تعجب کرنے والے کو مطمئن کر سکیں. یا یوں کہہ لیں کہ ان کے ملک اور معاشرے میں دونوں لباس (مسجد میں مسجد والا لباس اور بازار میں بازار والا لباس ) میں کچھ زیادہ فرق نہیں بلکہ نارمل سی بات ہے. اور مختلف مقامات پر مختلف لباس پہننا ثقافت ہے نا کہ سنت کی مخالفت…!

تحریر: سلیم اللہ صفدر

اہل مدارس سے چند گزارشات | دوسروں کی اور اپنی اصلاح کیجے مگر کیسے؟

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.