میرے خدا کا جو لطف و کرم نہیں ہوتا میں آج واصفِ شاہ امم نہیں ہوتا نبی کے عشق میں دنیا ہمیں ستاتی ہے نبی سے عشق ہمارا بھی کم
محمد امجد اکبر
مدت سے ہے یہ بات دل بیقرار میں ہو زندگی کی شام نبی کے دیار میں واللہ جو دلکشی ہے محمد کے شہر میں وہ دلکشی نہیں ہے کسی لالہ
جو کرتا ہے شہ دیں کی اطاعت زندگانی میں وہی ہے کامیابی میں وہی ہے کامرانی میں رسول اللہ کی ناموس پر قربان ہوتا ہے کوئی بچپن میں کوئی پیری
صورت ہے لاجواب تو سیرت ہے لاجواب وہ آخری نبی ہیں نبوت ہے لاجواب قرآن کی زباں پہ ہے مدحت حضور کی قرآن نے جو کی ہے وہ مدحت ہے
انکی الفت کا دیا دل میں جلا رکھا ہے خود کو دیوانہ محمد کا بنا رکھا ہے جب بھی لیتا ہوں میں نام آپکا یوں لگتا ہے جام کوثر ہے
اللہ کی محبت کا مزہ کیوں نہیں لیتے دنیا ہی میں جنت کا مزہ کیوں نہیں لیتے یہ نفس پرستی تمہیں برباد کرےگی اللہ کی اطاعت کا مزہ کیوں نہیں
کس بشر پہ مخفی ہے برتری مدینے کی سارے جگ میں پھیلی ہے روشنی مدینے کی سوچ کیا رہے ہو تم کس لیے رکے ہو تم خلد کو نکلتی ہے
مصطفی آئے تو ہو گئی روشنی ہر نگر روشنی ہر گلی روشنی یوں تو لائے تھے سارے نبی روشنی آپ لائے مگر آخری روشنی انکے چہرے کے انوار سے لی
کرنی ہے گر تجھے تو پیمبر کی بات کر دونوں جہاں کے سید و سرور کی بات کر پڑ جائیں ماند شمس و قمر جس کے سامنے خیر الانام کے