اپنوں نے ساتھ چھوڑا بغاوت میں آگئے
میرے حریف میری حمایت میں آگئے
میں نے سنبھال رَکَّھے تھے مرجھائے چند پھول
پی کر وہ جامِ اشک بشاشت میں آگئے
چاہا تھا جس کو میں نے وہ مجھ سے خفا رہا
اور غیر میرے دل کی عمارت میں آگئے
کَج فہم بے وقوف کہا جس سمے مجھے
میری غزل کے بول جسارت میں آگئے
راقم ہم اہلِ نسبتِ دینِ حنیف ہیں
لاحول پڑھ کے رب کی حفاظت میں آگئے
اپنوں نے ساتھ چھوڑا بغاوت میں آگئے
میرے حریف میری حمایت میں آگئے