موٹاپے کا علاج | موٹاپا کم کرنے کا طریقہ |موٹاپے کے بغیر زندگی

how to lose body fat percentage | how to decrease fat in body

0 0

موٹاپے کا علاج کیسے ممکن ہے؟ یہ وہ سوال ہے جو تیس سال کی عمر سے پہلے کسی کے ذہن میں آتا نہیں اور تیس سال کی عمر کے بعد کسی کے دماغ سے جاتا نہیں. اور دلچسپ یہ ہے کہ یہ ایک ایسی بیماری ہے کہ جو انسان کی شخصیت کو کھا جاتی ہے اور انسان اس کی وجہ سے اپنا بہت کچھ کھو دیتا ہے.

اگر انسان کالا ہو لولا ہو لنگڑا ہو حتی کہ اندھا بہرہ گونگا ہو تب بھی وہ اپنا سب کچھ اللہ کی مرضی پر ڈال سکتا ہے لیکن یہ وہ نقص ہے جو انسان کا اپنا پیدا کردہ ہے. اور اس موٹاپے کی وجہ سے انسان کی ظاہری شخصیت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے اور انسان اپنے دوست احباب میں مذاق بن جاتا ہے. اس کے برعکس ہر انسان چاہے وہ زندگی کے کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتا ہو اگر سمارٹ نظر آئے تو کامیاب لگتا ہے اور اگر موٹا ہو جائے تو اپنے نمبر کم کروا لیتا ہے. انسان چاہے سیاستدان ہے، چاہے جج جرنیل، چاہے کوئی انسپکٹر ہے چاہے کوئی پروفیسر، چاہے یوٹیوبر سے تعلق رکھتا ہے چاہے وی لاگر… پتلا ہونا اس کی اولین ترجیح ہے.

موٹاپے کا علاج کیسے ممکن ہے یہ بات جاننے کے لیے سب سے پہلے تو یہ سمجھ لیں کہ موٹاپا نہ ہی آسانی سے آتا ہے اور نہ ہی آسانی سے جاتا ہے. دوسری اہم بات یہ کہ اکثر لوگ جو بچپن سے ہی موٹے ہوتے ہیں وہ دراصل ان کی جسمانی ترتیب ہے نہ کہ پیٹ کا موٹا ہونا… اس لیے ان کا موٹاپا کم ہونا ممکن نہیں. البتہ وہ لوگ جو بچپن اور اغاذ جوانی میں سمارٹ تھے لیکن بعد میں انہیں موٹاپا آ گیا تو اس کا علاج ضرور ممکن ہے.

دوسری بات یہ ہے کہ باقی بیماریوں کی طرح موٹاپا ایسی بیماری ہرگز نہیں جو وقت یا عمر کا تقاضا ہو. نوے سال کے بزرگ بھی ہم نے دیکھے ہیں جو موٹے نہیں ہوئے اور کچھ مرد نوجوان شادی کرنے کے فوراً بعد ہی موٹے ہو گئے

موٹاپے کی وجوہات

اگر دیکھا جائے تو موٹاپے کی بہت ساری وجوہات میں سب سے بڑی وجہ کھانے میں بے احتیاطی ہے. اور کھانے میں بے احتیاطی سے مراد غذا کی اقسام پر بے احتیاطی نہیں بلکہ کھانے کے وقت میں بے احتیاطی ہے. یہی بے احتیاطی اس انداز میں ہے کہ بھوک لگی نہیں اور کھانا سامنے دیکھ لیا اور شروع ہو گئے.

پھر اسی طرح رات کا کھانا کھایا اور چہل قدمی نہیں کی اور فوراً سو گئے. اس بے احتیاطی کی وجہ سے موٹاپا ہونا لازمی امر ہے

کھانا کھانا لیکن جسم کو مشقت نہ دینا یا انرجی استعمال نہ کرنا بھی موٹاپے کی ایک وجہ ہے.

موٹاپے سے بچنے کے لیے ورزش کیوں ضروری ہے؟

آپ سب جانتے ہیں کہ جو غذا بھی ہم کھاتے ہیں وہ دو حصوں میں تقسیم ہوتی ہے. ایک حصہ جسم کو مضبوطی دیتا ہے یا جسم پر استعمال ہوتا ہے اور دوسرا حصہ دماغ کو طاقتور رکھتا ہے . ہر انسان کے دن بھر کی روٹین میں جتنی ذہن کو توانائی کی ضرورت ہوتی ہے وہ اتنی حاصل ہو جاتی ہے. لیکن جتنی توانائی جسم کو ضرورت ہوتی ہے اس سے کہیں زیادہ معدے میں خوراک کی شکل میں پہنچ جاتی ہے.
اب اگر جسم حرکت میں ہوتا یعنی جسمانی کام ہوتا رہے تو وہ توانائی استعمال ہو ہی جاتی لیکن پروبلم یہ ہے کہ ذہن اپنا حصہ لیکر باقی توانائی واپس موڑ دیتا ہے اور جسم اس بقیہ خوراک کو استعمال ہی نہیں کرتا. اب وہ تمام خوراک چربی کی شکل میں جسم میں سٹور پو جاتی ہے اور موٹاپا پیدا کرتی ہے. یقین کریں ہماری روزانہ زندگی میں یعنی ہفتے میں سات دن اور دن میں چوبیس گھنٹے جتنی ذہنی مشقت ذہنی اذیت اور ذہنی تھکاوٹ ہوتی ہے اتنی اگر جسمانی مشقت ہو تو کبھی موٹاپا ہمارے قریب ہی نہ پھٹکے. سارا مسئلہ ہے ہی یہ کہ ذہن کہیں نہ کہیں مصروف رہتا ہے اور جسم نے قسم کھائی ہوئی ہے کہ کہیں کوئی مشقت کر لیں حتی کہ ایک وقت تھا جب جسم کی اور کوئی مشقت نہ بھی ہوتی تو کہیں آنا جانا ہوتا تو پیدل چل کر کافی زیادہ مشقت اب وہ مشقت پٹرول کی شکل میں خرچ ہو جاتی ہے اور ہمارا جسم پیدل کی بجائے کسی گاڑی پر ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ جاتا ہے

آپ نے غور کیا ہو گا موٹاپا ہوتا ہی انہیں ہے جو زیادہ تر ذہنی کام کرتے ہیں نہ کہ جسمانی کام.

موٹاپے سے بچنے کا طریقہ

اب جب کہ ہم جانتے ہیں کہ موٹاپے کی اصل وجہ بلاضرورت خوراک کا جسم میں جمع ہو جانا ہے تو موٹاپے کا علاج یعنی اس کا حل یہی ہے کہ یا تو اس بلاضرورت خوراک کو جسم میں لایا ہی نہ جائے یا پھر اسے استعمال کر لیا جائے.

دو وقت کی بجائے تین وقت کھائیں لیکن کم کھائیں
کم کھائیں لیکن مزیدار کھائیں
بھوکے رہنے کی مشقت برداشت کر لیں لیکن پیٹ بھر کر کھانے کے بعد کی اذیت نہ اٹھائیں

ہوتا یہ ہے کہ لوگ عام طور پر خوراک اور کھانا دیکھتے ہیں اور کھانا شروع کر دیتے ہیں حالانکہ ہونا یہ چاہیے کہ بھوک محسوس کریں تب کھانے کی طرف متوجہ ہوں. پھر یہی نہیں بلکہ پیٹ مکمل بھرا نہ ہو لیکن کھانے سے پہلے ہی ہاتھ کھینچ لیں. یاد رکھیں آدھی یا ایک روٹی کھانے سے کوئی طاقت انرجی میں کمی یا تھکاوٹ نہیں ہوتی. میں نے خود کئی بار محسوس کیا کہ آدھی روٹی کی گنجائش موجود ہوتی ہے لیکن اگر آپ دھیان ادھر ادھر بھٹکا دیں تھوڑی دیر کے لیے تو کچھ دیر بعد وہ بھوک ختم ہو جائے گی اس لیے کوشش کریں جب کھانا کھا رہے ہوں تو پیٹ بھرنے سے کچھ دیر پہلے دل پر جبر کر کے کھانا روک دیں. اس کا سب سے بہترین طریقہ یہی ہے کہ دھیان تھوڑی دیر کے لیے ادھر ادھر کر لیں. بعد میں بھوک محسوس ہی نہیں ہو گی

موٹاپے کا علاج پیٹ کم کر کے

اب ایک تو یہ تھا کہ ہم نے خوراک ہی کم کھائی اور پیٹ بڑھنے نہیں دیا لیکن فرض کریں پیٹ بڑھ گیا ہے تو اب اس کا کیا حل ہے؟ تو ایک حل یہ ہے کہ جسم میں موجود اس چربی کو استعمال کر کے ختم کریں یا پھر جلا کر ختم کریں.

استعمال کر کے ختم کرنے کا مطلب یہ کہ جسم میں جہاں وہ چربی موجود ہے جسم کے اس حصے کو اتنی مشقت دیں کہ وہ چربی وہاں موجود نہ رہے اور استعمال ہو جائے. اب معاملہ یہ ہے کہ موٹاپا جسے برا سمجھا جاتا ہے یا نقصان دہ ہے وہ دراصل آپ کے پیٹ اور پیٹ کے نیچے ران کمر کی چربی ہے. کندھے اور بازو جتنے بھی موٹے ہو جائیں برے نہیں لگتے بلکہ اچھے لگتے ہیں. لیکن اگر پیٹ موٹا ہو جائے یا ران پر گوشت بڑھ جائے تو کافی عجیب لگتا ہے اور چلنے میں مشقت بھی دیتا ہے.

بہرحال تو پیٹ اور ران کے گوشت کی چربی کم کرنے کے لیے پیٹ اور ران کی ورزش شروع کریں. سب سے بہترین طریقہ تو واک کرنا ہے جس میں تیز تیز چلنا بھاگنا سیڑھیاں چڑھنا اترنا سب کچھ آ جاتا ہے. اس کے علاوہ اور بہت ساری ایسی ورزشیں ہیں جو آگر اس نیت اور سوچ کے ساتھ کی جائیں کہ اس کے ذریعے پیٹ کی چربی پگھلے گی اور پیٹ کم ہو گا تو یقیناً باقاعدگی سے ایسی ورزشیں جاری رکھنے سے پیٹ کی چربی پگھل جائے گی اور پیٹ کم ہو ہی جائے گا.

یہاں ایک بات نوٹ کر لیں پیٹ کی ورزش سے مراد ہر وہ ورزش ہے جسے کرتے ہوئے پیٹ کو مشقت محسوس ہو اور بعد میں تھکاوٹ کا احساس ہو.

موٹاپے کا علاج چربی کو جلا کر

لیموں ادرک، پودینہ اجوائن، جیسی بیشمار چیزیں ایسی ہیں جن کا قہوہ پیٹ کی چربی کو ختم کر سکتا ہے. خاص طور پر یہ لیموں تو نہایت تیزی سے چربی میں کمی پیدا کرتا ہے اس لیے ایک طرف آپ کھانا کم کھائیں پھر جسمانی مشقت جسمانی ورزش کرتے رہیں اور تیسرا طریقہ یہی ہے کہ ایسا قہوہ پیتے رہیں جو آپ کے پیٹ کی چربی کو کم کرنے میں معاون ہو. اگر آپ یہ کام مستقل بنیادوں پر شروع کریں تو ایک مہینے میں ہی پیٹ اپنی اصل جگہ پر واپس آ جاے گا ان شا اللہ

تحریر : سلیم اللہ صفدر

فلسفہ نفسیات اور حقیقی زندگی کی جانب ایک نظر | معاشرتی روئیے کے اہم موضوع پر آپ بیتی

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.