فکرِ اقبال اور آج کا نوجوان | ایک فکر انگزیز تحریر

Allama Iqbal and today's youth

0 11

فکرِ اقبال اور اس کے اندر موجود حقائق پر نظر ثانی کی جاۓ تو ذہن میں محض اس کی قدر و قیمت کے احساس کے لیے ایک ہی مقام آتا ہے اور وہ مقام یہ ہے کہ اقبال کی شاعری یقیناً سنہری حروف کی حیثیت رکھتی ہے.

سنہرے الفاظوں کے متعلق سوچنا یقیناً قابلِ قدر جذبہ ہے مگر سوچ تو انسان کی شخصیت کی تعمیر کرتی اور اس کے کردار کی تسخیر کرنے کے عمل میں سب سے زیادہ بنیادی کردار ادا کرنے والا عنصر ہے ۔یہ سوچ ہی تو ہے جو انسان کو انسانیت کے مفہوم سے آشنا کرتی ہے اور فکر و نظر میں حقیقیت کے رنگ بھرنے کے ساتھ ایک ایسا جہاں مسخر کرتی ہے جس جہاں میں ان الفاظوں کی قدر و قیمت کی صحیح پہچان اور اس کا ادراک ہونا ہر سمت دکھائی دیتا ہے۔

آج کا نوجوان نہ تو اپنے سنہرے ماضی سے واقف ہے اور نہ ہی اسے اپنے مستقبل کی کوئی فکر

عصر حاضر میں بلخصوص نوجوان نسل کے اندر پاۓ جانے والے رجحانات بہر حال جہاں ایک خوش آئند تبدیلی ہے جو وقت کی ضرورت بھی ہے مگر وہیں یہ رجحانات ایک انتہائی پر خطر دور کی جانب نشان دہی کرنے والی علامات بھی ہیں ۔ تاریخ کے اوراق کو اگر پلٹنے کا اتفاق ہو تو یہ حقیقت آشکار ہوتی محسوس ہوتی ہے اور اس امر حقیقت سے اختلاف نا صرف عقل پر پردہ ڈالنے کے مترادف ہوگا بلکہ نصیحت حاصل کرنے کے دروازوں کو میرے اور آپ کے لیے بند کردے گا کیونکہ موجودہ صورتحال کے پیش نظر فی الواقع یہ کہنا ہر گز بھی غلط نہ ہوگا کہ آج کا نوجوان نہ تو اپنے سنہرے ماضی سے واقف ہے اور نہ ہی اسے اپنے مستقبل کی کوئی فکر کیونکہ میں سمجھتی ہوں یہ فکر انسان کے وجود کو انسانیت سے آشنا کرتی ہے ،ذندگی کا اصل مفہوم سمجھاتی اور سکھاتی ہے۔

اگر فکر میں وہ تاثیر نہ ہو جو حق گوئی کے بجاۓ بد دیانتی اور برائ کی جانب التفات کرنے کو کہے اگر کردار میں وہ آہنی دیوار اور وہ سیرت فولاد نہ پائی جاتی ہو جو خودی کو بلند کرکے آپ کو شاہین بننا سکھاتی ہے تو پھر لا محالہ یہ کہنا ہر گز بھی غلط نہ ہوگا کہ آج کا نوجوان خود کو پہچاننے سے قاصر ہو چکا ہے اسے جس تہذیب نے اپنا اسیر بنا رکھا ہے وہ اس غلامی سے نجات حاصل کرنے کا پروانہ اسی لیے نہیں پاتا کیونکہ آزادی کی قدر و قیمت کی صحیح پہچان رکھنے والی تاریخ سے اس نے اپنا رشتہ توڑ دیا ہے اور وہ اس فرنگی محل کے اندر نگاہوں کو خیرہ کردینے والی آرام و آسائش کے نشے میں ڈوب چکا ہے ۔

جو نوجوان ملت کے مقدر کا ستارہ بن کر مستقبل کو سنوارنے کی فکر سے معمور ہونا چاہیے تھا آج وہ اس فکر کی تاثیر سے نا آشنا ہو کر اپنی شناخت کو برقرار رکھنے میں دشواری محسوس کرتا ہے

آج جب اس دور میں ہر صبح کا آغاز ایک نئ مغربی یلغار سے ہوتے ہوۓ دیکھتی ہوں اور پھر ایک جانب جب ان سماعتوں کو اس یلغار سے بے پرواہ اور خداۓ واحد کی اس مخلوق پر نگاہ پڑتی ہے تو دل خون کے آنسو روتا ہے کیونکہ یہی تو وہ قیمتی سرمایہ ہے جس کے متعلق اقبال کا خواب تعبیر میں تبدیل ہوا تھا ،یہی تو وہ روشن صبح کی امید کا مرکز ہیں جن کے متعلق اقبال نے بڑے تفاخر سے اپنے اشعار میں کہا تھا کہ جوانوں کو پیروں کا استاد کر مگر یہ میری آنکھیں کیا دیکھ رہی ہیں جو نوجوان ملت کے مقدر کا ستارہ بن کر مستقبل کو سنوارنے کی فکر سے معمور ہونا چاہیے تھا آج وہ اس فکر کی تاثیر سے نا آشنا ہو کر اپنی شناخت کو برقرار رکھنے میں دشواری محسوس کرتا ہے وہ تعلیمات وہ سنہرے حروف اور وہ اسلاف کی باتیں اسے اپنی جانب متوجہ کرنے کے بجاۓ ابلیسی نظام کے تسلط میں مبتلا کررہی ہیں اور وہ خود کو اس نظام کے تابع کرتا ہوا ظلمت کے اندھیروں میں اپنی خودی کو بھلا بیٹھا ہے اور مغربی تہذیب اور فرنگیت نے اور اس کی چکاچوند نے اس مرد مسلمان کی آنکھوں کو حقیقت سے نابینا کردیا ہے

آج یوم اقبال کے موقع پر فکرِ اقبال کے تناظر میں عصر حاضر میں موجود برائیوں اور بڑھتی ہوئی بے راہ روی کی وجوہات پر ایک نظر ڈال کر مجھے اور آپ کو دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا یہ معاشرہ ،یہ معیشت ،یہ مملکت اور اس میں رائج نظام آیا خداۓ واحد اور اس کی حاکمیت کا اقرار کرتا ہوا نظر آتا ہے؟  کیا آج کا مسلمان واقعی مرد مسلمان ہے جہاں امت اور ملت کی تقدیر لکھنے والی نسل نو کو سنہری حروف محض کہہ دینے کا سبق سکھلایا جاتا ہے اور اس کے اندر موجود روح کو سمجھنے کی جہاں بات آتی ہے وہاں ضمیر پر قفل چڑھانے میں نا صرف ہمارے تعلیمی اداروں نے کوئ قصر اٹھا رکھی ہے اور نہ ہی اس نظام تعلیم کو رائج کرنے والی حکومت نے۔

فکرِ اقبال یعنی ہر لحظہ مومن کی نئی شان ہمارے نوجوانون کے اندر نظر نہیں آتی

یہی وجہ ہے کہ ہر لحظہ مومن کی نئی شان ہمارے نوجوانوں کے اندر نظر نہیں آتی کیونکہ یومِ اقبال ہو یا پھر یومِ آزادی خواہ کوئ بھی موقع ہو اس موقع کی مناسبت سے حکومتی سطح پر چھٹی کا اعلان تو کردیا جاتا ہے مگر یہی ایک دن کی چھٹی اس ملت کے روشن مستقبل کی تلاش کرنے والوں کے حق میں مایوسی کے اندھیروں میں اضافے کا باعث بنتی نظر آتی ہے آج یہی نوجوان شاہین کے تصور سے نا آشنا اور خودی کے جذبے سے اپنی شخصیت کو خالی پاتا ہے جی ہاں آج یہی جوان حیا کے موتیوں سے اپنا دامن بھرنے کے بجائے خیانت سے اپنے کردار کو کمزور کررہا ہے کیا اقبال نے ایسے پاکستان کا خواب دیکھا تھا جس پاکستان میں آپ اور میں موجود ہیں کیا یہی فکر اقبال اس عظیم انقلاب کی نمایاں دلیل نہیں تھی جس نے خواب غفلت سے بیدار کرکے آزادی کی روح قید سے بوجھل وجودوں میں پھونک کر ایک ایسی سرزمین کا حصول ممکن کیا تھا جس کی بنیاد ہر اس وصف پر مشتمل تھی جو اوصاف پاکیزگی کا درس دیتے ہیں جو خیانت کو نہیں دیانت کو ترجیح دیتے ہیں جو غلامی کو نہیں آزادی کو تسلیم کرتے ہیں
مگر زرا سوچیئے کیا آزادی محض آمد و رفت اور خرید و فروخت کرنے کا نام ہے کیا آزادی محض مساجد تعمیر کرلینے اور اس میں نمازیں ادا کرلینے کا نام ہے میرے ہم وطنوں آزادی تو اس فکر کا نام ہے جس فکر کی تاثیر سے طلوع اسلام کی راہ ہموار ہوگی اور اسلام مذہب بن کر نہیں بلکہ دین یعنی ہماری زندگی کے ہر ہر لمحے میں ہماری شخصیت کے ایک ایک وصف میں پوری طرح سرایت کر جاے گا اور یہی وہ وقت ہوگا جب یہ سرزمین نور لا الہ سے جگمگاۓ گی اور یہ مسجدوں کے اوپر بنے بڑے بڑے مینار نہیں بلکہ مسجدوں کے اندر موجود وہ رسم شبیری ادا کرنے کا جذبہ رکھنے والے وجود اپنے خدا کی بندگی کا صحیح معنوں میں حق ادا کرنے کے لئے جذبہ خودی سے سرشار ہوں گے اور سراپا عشق کا پیغام ہوں گے یہی وہ عشق کے پیامبر ہوں گے جن پیامبروں کو تاج و تخت سے کوئ الفت نہیں ہوتی انہیں تو اس راز خودی کی تلاش ہوتی ہے جس راز سے واقف ہوجانے کے بعد ہر فرد ملت کا ستارہ بن کر چمکتا ہے یہ وہ نایاب گوہر ہیں جن کے متعلق اقبال نے کہا ہے کہ

تیرے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
میری سادگی دیکھ میں کیا چاہتا ہوں

مگر ان حروف کو محض یہ کہہ دینے سے ان کا حق ادا نہ ہوگا کہ سنہری اوراق پر لکھے جانے کے قابل ہیں بلکہ اس کے اندر موجود روح سے اپنا رشتہ مضبوط کرنے کی صورت ہی میں ہماری دنیا و آخرت کی بقا ہے
اللّٰہ اس ملک و ملت اور عالم اسلام میں موجود ہر فرد کو فلسفہ خودی سے سرشار کردے اور اس سر زمین پر اپنا خصوصی رحم فرمائے آمین یا رب العالمین
اقبال نے کیا خوب کہا ہے

نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشت ویراں سے
زرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

تحریر :  عریشہ اقبال

تمنا ایک چراغ ہے اسے دعا کے ذریعے روشن کیجئے | مایوس دلوں کیلئے ایک حوصلہ افزا تحریر

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.