زمانے کو ہم آزمانے لگے
ستم گر ستم پھر سے ڈھانے لگے
عجب زندگی میں عجب موڑ ہے
کہ قاتل جنازے اٹھانے لگے
ہمارے دلوں پر لگاۓ نشاں
ہمیں پھر وہ ظالم منانے لگے
جسکی آغوشِ محبت اک جہاں ہے
ماں سے عالی روپ دنیا میں کہاں ہے
خوں مجھے دے کر جگر کا اس نے پالا
میری ماں کا پیار تھاسب سے نرالا
دل مرا رب کی محبت سے اجالا
کچھ بھی تو پھر بنا اس کےدیکھا نہ تھا
عکس اوجھل کبھی اس کا ہوتا نہ تھا
رب نےبخشی تھی دولت اسے حسن کی
دید سے نینوں کا پیالہ بھرتا نہ تھا
عشق کی آگ میں تنہا جلتی رہی
حال دل کا کبھی اس نے پوچھا نہ تھا
کب کِسے کیا کہا رب کو معلوم ہے
کِس سے ہے رابطہ رب کو معلوم ہے
بُھول کر آخرت کون کِس کی ہوئی
کون کس کا ہوا رب کو معلوم ہے
بس وہی ہے علیم بذات صدور
کون جھٹلارہا رب کو معلوم ہے
اہل مدارس سے چند گزارشات پیش کرنا چاہتا ہوں۔ ہم لوگوں سے اللہ تعالٰی کے دین کے لیے بچے و جوان مانگتے ہیں
لیکن مدارس کے اکثر شیوخ اور اساتذہ مہتمم، ناظم سے شہر کا ایک گھرانہ بھی عملی طور پر متاثر نہیں ہوتا
جس کے درج ذیل چند اسباب ہیں…
اے خدا مجھ کو کر دے عطا عافیت
مانگتا ہوں ہمیشہ دعا عافیت
میرے مولا کوئی آزمائش نہ ڈال
ہر گھڑی اس جہاں کر سدا عافیت
یہ ہے ایمان کے بعد دولت بڑی
میں لگاتا ہوں ہر دم صدا عافیت
ہر اک دل میں خوشی کے رنگ بھر کر مسکرائی ہے
محبت اور رونق ساتھ لیکر عید آئی ہے
نئے کپڑے، نئی جوتی، سجا کر ہاتھ پر مہندی
ہر اک ننھی پری اس عید کے دن کھلکھلائی ہے