یہ خواہش جو رہتی جینے کی دل میں
یہ آتش جو جلتی ہے سینے میں اپنے
تمنا یہی ہے کہ ہو ایک خیمہ
وہ خیمہ مدینے کی راہ میں سجا ہو
یہ منظر بھی اپنا مقدر بنے اب
شجر یہ دل و جاں پہ سایہ کرے اب
حسیں آقا سا دنیا میں کہیں چہرا نہیں ملتا
مدینے کی فضا جیسا کہیں جلوا نہیں ملتا
نظارہ شہر آقا کا انوکھا ہے جہاں بھر میں
کوئی بھی سبز گنبد سا کہیں پیارا نہیں ملتا
ہوا مداح قرطاس و قلم ختمِ نبوّت کا
میں جب کرنے لگا نغمہ رقم ختمِ نبوّت کا
کسی بے دین کی کوشش سے جھک جائے نہیں ممکن
رہے گا تا ابد اونچا علَم ختمِ نبوّت کا
بن کے آئے اس جہاں رہبر ، امام الانبیاء
میرے آقا اور ہیں سرور ، امام الانبیاء
وہ سراپا نور ہیں لیکن بشر ہیں بالیقیں
وہ منور اور ہیں انور ، امام الانبیاء