ہم اپنے گھر کا رستہ بھول کر صحرا میں آ نکلے بجھانے پیاس اپنی ریت کے دریا میں آنکلے کبھی چہرے بھی دیتے ہیں کھلا دھوکا نگاہوں کو تلاش دوستاں
urdu poetry sad poetry
خط کئی لکھے مگر اک بھی نہ اِرسال کیا میں نے یہ کام کئی ماہ، کئی سال کیا اور بھی کام تھے، پر میں نے محبت کو چُنا ہاں! ضروری
جب بھی ملتا ہے وہ انجان بڑا لگتا ہے مجھ کو اس بات میں نقصان بڑا لگتا ہے عمر تھوڑی ہے مگر تاب جمال ایسی ہے جس جگہ بیٹھے وہ،
قہقہے میں اداسی چھپاتا ہوں میں کوئی پوچھے تو خوش ہوں بتاتا ہوں میں سب سے ہنس کر ملے سب سے باتیں کرے عادتِ یار پر مسکراتا ہوں میں
کٹ گئی ہے زندگانی ہم سفر کی آس میں مر ہی جائیں گے کسی دن چارہ گر کی آس میں طاقت پرواز جب سے چھین لی صیاد نے رینگتے رہتے
ہر طرف بے بسی کا عالم ہے جس کو دیکھو وہ شخص بے دم ہے کوئی انسانیت نہیں باقی مال کے آگے سب کا سر خم ہے مشرقی
مری توجہ میں جس روز کچھ کمی ہوگی یقین کر کہ تری جان پر بنی ہوگی ہمارے گھر جو اندھیرے ہیں،کون مانے گا ؟ ہماری چاند ستاروں سے دوستی ہوگی