خط کئی لکھے مگر اک بھی نہ اِرسال کیا
میں نے یہ کام کئی ماہ، کئی سال کیا
اور بھی کام تھے، پر میں نے محبت کو چُنا
ہاں! ضروری یہ لگا، بس یہی فِی الحال کیا
کچھ بھی تو پھر بنا اس کےدیکھا نہ تھا
عکس اوجھل کبھی اس کا ہوتا نہ تھا
رب نےبخشی تھی دولت اسے حسن کی
دید سے نینوں کا پیالہ بھرتا نہ تھا
عشق کی آگ میں تنہا جلتی رہی
حال دل کا کبھی اس نے پوچھا نہ تھا
جب اُس نے پُوچھا حال تو ، میں نے کہا ؛ میں ٹھیک ہوں
اُسے بھی میری بات سے ، یہی لگا میں ٹھیک ہوں
یہ میرے لوگ حال میرا پُوچھنے کو آئے ہیں
میں ٹھیک تو نہیں ہوں پر ، یہی کہا میں ٹھیک ہوں
ترے جہان میں کسی کی اب مجھے طلب نہیں
میں کہہ رہا…
کٹ گئی ہے زندگانی ہم سفر کی آس میں
مر ہی جائیں گے کسی دن چارہ گر کی آس میں
طاقت پرواز جب سے چھین لی صیاد نے
رینگتے رہتے ہیں پنچھی بال و پر کی آس میں
کھا گئی سپنے غریبی اڑ گیا رنگِ شباب
در بدر پھرتے رہے ہم اپنے گھر کی آس میں…
اے میرے دل تو بتا بھی تجھے ہوا کیا ہے؟
یہ تیرے درد کی آخر بتا دوا کیا ہے؟
لہو کے گھونٹ جو بھرتا ھی جا رہا ہے تو
کسی کے لب سے ابھی کے ابھی سنا کیا ہے؟
یہ شرم سے تیری آنکھیں جھکی جھکی کیوں ہیں؟
اے ہم سفر…
ایسا کر دے گا ویسا کر دےگا
ہم کو یہ خوف آدھا کردےگا
میں اسے خود کو سونپ آیا ہوں
اب وہ جو بھی کرے گا کر دے گا
ایسا لگتا ہے بارِ عشق ہمیں
وقت سے پہلے بوڑھا کر دےگا
انکی آنکھوں کا ایک آنسو بھی
سارے دریا کو میٹھا کر دےگا
پھر…