نامرادی کے پسینے سے شرابور ہوں میں
اے مری تازہ تھکن دیکھ بہت چٌور ہوں میں
بات یہ ہے کہ کوئی آنکھ بھی دلچسپی لے
شیشۂ خواب دکھانے میں تو مشہور ہوں میں
اژدہے رینگتے ہیں ، بجلیاں گر جاتی ہیں
اور ستم یہ کہ عصا ہوں نہ یہاں طور ہوں میں…
ہم اپنے گھر کا رستہ بھول کر صحرا میں آ نکلے
بجھانے پیاس اپنی ریت کے دریا میں آنکلے
کبھی چہرے بھی دیتے ہیں کھلا دھوکا نگاہوں کو
تلاش دوستاں تھی ہم صف اعدا میں آنکلے
لبوں پر دشمنی کے تذکرے اچھے نہیں لگتے
سماعت کو یہ کڑوے ذائقے اچھے نہیں لگتے
مری آنکھوں میں ایسے جھلملاتے ہی رہیں آنسو
چراغوں سے یہ خالی طاقچے اچھے نہیں لگتے
جب رویوں میں بدلاؤ آ نے لگا
لمحہ لمحہ ہمیں خوں رُلانے لگا
پھیر کر چل دیا روخ وہ اوروں کے سنگ
دعوۂِ عشق جو تھا ٹِھکانے لگا
میری حالت پہ سب رو رہے تھے مگر.!
اک وہی شخص تھا مسکرانے لگا..!
اُتارتا ہوں ڈائری پر اک خیال کی تھکن
کِسی کے ساتھ کے عروج اور زوال کی تھکن
جو ایک جھوٹے دستخط پہ سینکڑوں کماتا ہے
کہاں سمجھ سکے گا وہ بھلا حلال کی تھکن