خط کئی لکھے مگر اک بھی نہ اِرسال کیا
میں نے یہ کام کئی ماہ، کئی سال کیا
اور بھی کام تھے، پر میں نے محبت کو چُنا
ہاں! ضروری یہ لگا، بس یہی فِی الحال کیا
کٹ گئی ہے زندگانی ہم سفر کی آس میں
مر ہی جائیں گے کسی دن چارہ گر کی آس میں
طاقت پرواز جب سے چھین لی صیاد نے
رینگتے رہتے ہیں پنچھی بال و پر کی آس میں
کھا گئی سپنے غریبی اڑ گیا رنگِ شباب
در بدر پھرتے رہے ہم اپنے گھر کی آس میں…
اک رويہ تھا جو 'روا' نہ ہوا
ورنہ پہلے بھی کم برا نہ ہوا
اسکو لاۓ تھے کھینچ تان کے سو
وہ دوا ہو گیا،شفا نہ ہوا
جانے کیا نقص تھا نمک داں میں ؟
زخم سلگا ،مگر ہرا نہ ہوا
ہاۓ نقصان پارسائی کے !…