اے مولا درد سارے چھین کر خوشیاں عطا کر دے
میرے بے چین اس دل کو سکوں سے آشنا کر دے
کرم کی بارشیں برسا میری روح کے بیاباں پر
کہ دھل جائے گناہ کی دھند، روشن ہو ہر اک منظر
نظر آئے تیری قدرت مجھے ہر چیز کے اندر
میرے دل کے نہاں خانوں میں…
درد میں ہوں مبتلا میں دل میں تیرا زخم ہے
تو نے مجھ کو دے دیا پر کتنا گہرا زخم ہے
جس کو اپنا میں نے جانا وہ منافق بن گیا
غیر کا ہرگز نہیں یہ میرا اپنا زخم ہے
اٹھا لو اِس غنیمت سے کہ جو حصہ تمھارا ہے
لٹا دو سب غریبوں میں کہ جو حصہ ہمارا ہے۔
مرے الفاظ مجھ سے اب، بغاوت کر نہیں سکتے
کہ میں نے ان کی رگ رگ میں لہو اپنا اتارا ہے۔