میرے اجداد نے مانگا چمن میں آشیاں لوگو
میرے رب نے عطا کر دی یہ فصل گلستاں لوگو
اگرچہ ظلم و تاریکی میں ڈوبا ہے جہاں لوگو
مگر ہم کو ہمارے رب سے ہے حکم اذاں لوگو
مہذب بات کرتے ہیں تو شیرینی ٹپکتی ہے
ثمر جس میں لگا ہوتا ہے وہ ڈالی لچکتی ہے
اجالے میں جو جیسا ہے نظر آتا ہے ویسا ہی
تمہاری شخصیت لیکن اندھیرے میں چمکتی ہے
اٹھا لو اِس غنیمت سے کہ جو حصہ تمھارا ہے
لٹا دو سب غریبوں میں کہ جو حصہ ہمارا ہے۔
مرے الفاظ مجھ سے اب، بغاوت کر نہیں سکتے
کہ میں نے ان کی رگ رگ میں لہو اپنا اتارا ہے۔
زمانے کو ہم آزمانے لگے
ستم گر ستم پھر سے ڈھانے لگے
عجب زندگی میں عجب موڑ ہے
کہ قاتل جنازے اٹھانے لگے
ہمارے دلوں پر لگاۓ نشاں
ہمیں پھر وہ ظالم منانے لگے