میرے اجداد نے مانگا چمن میں آشیاں لوگو
میرے رب نے عطا کر دی یہ فصل گلستاں لوگو
اگرچہ ظلم و تاریکی میں ڈوبا ہے جہاں لوگو
مگر ہم کو ہمارے رب سے ہے حکم اذاں لوگو
مہذب بات کرتے ہیں تو شیرینی ٹپکتی ہے
ثمر جس میں لگا ہوتا ہے وہ ڈالی لچکتی ہے
اجالے میں جو جیسا ہے نظر آتا ہے ویسا ہی
تمہاری شخصیت لیکن اندھیرے میں چمکتی ہے
اٹھا لو اِس غنیمت سے کہ جو حصہ تمھارا ہے
لٹا دو سب غریبوں میں کہ جو حصہ ہمارا ہے۔
مرے الفاظ مجھ سے اب، بغاوت کر نہیں سکتے
کہ میں نے ان کی رگ رگ میں لہو اپنا اتارا ہے۔
زمانے کو ہم آزمانے لگے
ستم گر ستم پھر سے ڈھانے لگے
عجب زندگی میں عجب موڑ ہے
کہ قاتل جنازے اٹھانے لگے
ہمارے دلوں پر لگاۓ نشاں
ہمیں پھر وہ ظالم منانے لگے
مجھے خون کچھ اور بہانا پڑے گا
مجھے پھر سے، مطلب نہانا پڑے گا
گزشتہ کئی روز سے وہ خفا ہے
دل و جان کہہ کر منانا پڑے گا
عنایت جو بھی کی مرے دل میں رہ کر
کبھی تو اسے آزمانا پڑے گا
وہ کہتا ہے تصویر کا کیا کرو گے
جدائی میں رکھ کر…
غموں میں بھی رہِ الفت کے راہی غم نہیں کرتے
خوشی کےجال میں بھی شوقِ منزل کم نہیں کرتے
ہماری ہر خوشی کے واسطے جس نے لہو بیچا
کم ازکم اُس کی پلکیں جانوربھی نم نہیں کرتے
پتا ہےہم کسی کےدل میں رہنےکےنہیں قابل
تبھی سجنے سنورنے کا تکلف ہم…
یاد کے پیڑ کی شاخوں پہ چہک ہوتی ہے
اور پھر صبح کے ہنگام تلک ہوتی ہے
جانا ہوتا ہے مجھے نیند کی وادی کی طرف
سامنے سوچ کے رستے کی سڑک ہوتی ہے
دوست پل بھر میں مرے راز اگل دیتے ہیں
جیسے کشکول ہلانے سے کھنک ہوتی ہے
غیر آباد علاقوں کی…