نامرادی کے پسینے سے شرابور ہوں میں
اے مری تازہ تھکن دیکھ بہت چٌور ہوں میں
بات یہ ہے کہ کوئی آنکھ بھی دلچسپی لے
شیشۂ خواب دکھانے میں تو مشہور ہوں میں
اژدہے رینگتے ہیں ، بجلیاں گر جاتی ہیں
اور ستم یہ کہ عصا ہوں نہ یہاں طور ہوں میں…
جینا ہوا محال، دسمبر کی رات میں
آیا ترا خیال، دسمبر کی رات میں
بے چینیاں ، وبالِ فسوں، تلخیِ خیال
کیا کیا نہیں کمال،دسمبر کی رات میں
جلتے ہوئے چراغ پہ پانی نہ ڈال دوست
مت کاٹ میری کال، دسمبر کی رات میں
یہ غم جلا رہا ہے، مرے پاس…
بخت مانگے تو نہ تھے تیری دعا نے میرے
پھر بھی ارمان کیے پورے خدا نے میرے
اب تو لمحوں کی بھی خیرات نہیں دیتا وہ
جس کے ہوتے تھے کبھی سارے زمانے میرے
میں مروت ہی میں بس ہار گیا ہوں ورنہ
شہر بھر ہی میں ہیں مشہور نشانے میرے
چٹھیاں…
دشتِ فرقت میں گر چلو گے الگ
شعر ایسے ہی کچھ کہو گے الگ
شدتِ عشق سے یہ لگتا ہے
جب کبھی تم مرے، مرو گے الگ
بات اک خاص کرنی ہے تم سے
شرط یہ ہے کہ تم ملو گے الگ
ایک بار اُس کو چھو کے دیکھو تو
ساری دنیا سے تم لگو گے الگ
ایک عشرہ…
میری رفیقہ ابھی تو کتنی وفاؤں کا ہے حساب باقی
وہ جن کو تعبیر مل نہ پائی ابھی تو کتنے ہیں خواب باقی
جو کھل کے بھی مسکرا سکے ناں ابھی ہیں کتنے گلاب باقی
ابھی ہیں کتنے سوال قائم ابھی ہیں کتنے جواب باقی
ابھی تو بہنوں کے سر کے…
شعر اچھا ہو گیا ہے پر یہ آدھا اس کا ہے
ایک مصرعہ میرا ہے اور ایک مصرعہ اس کا ہے
دوست کہتے ہیں وہ تجھ میں اب بھی بستا ہے کہیں
گفتگو تیری سہی لیکن یہ لہجہ اس کا ہے
اس لیے بھی اس گلی کے تاجروں کی عید ہے
اس گلی کی اک دکاں پر آنا جانا…
کہانی وہ اپنی سناتا رہا ہے
یوں غم اپنے دل سے مٹـاتا رہا ہے
کبھی دوست اپنا تھا مانا مگر اب
وہ مجھ پر ہی خنجر چلاتا رہا ہے
فقط میں ہوں دلبر یہ اس نے کہا تھا
وہ اوروں سے بھی دل لگاتا رہا ہے
کبھی پھول، کلیاں ہی برسائے مجھ پر
کبھی…
ستاروں سے راہ پکڑنے والو ستارہ خود بن کے راہ دکھاؤ
ہر اک اندھیرے کو نور کر دو فلک پہ کچھ ایسے جگمگاؤ
اخوتوں کی محبتوں کی مٹھاس لہجے میں ایسے بھر دو
ہر ایک دکھ پہ صبر دکھاؤ، ہر ایک ٹھوکر پہ مسکراؤ
جفا کی بستی میں جتنے پتھر بھی کھاؤ…