ستم شعار زمانے نے حوصلے نہ دیے رہِ سیاہ پہ پھینکا ، مگر دیے نہ دیے بہت سے واقعے ایسے گزر گئے ہیں کہ جو ترے جمال کی عادت نے
sad poetry urdu
رائیگانی کا دکھ سمجھتے ہو ؟ بے زبانی کا دکھ سمجھتے ہو؟ ساتھ رہتے ہیں مل نہیں سکتے آگ پانی کا دکھ سمجھتے ہو؟
نامرادی کے پسینے سے شرابور ہوں میں اے مری تازہ تھکن دیکھ بہت چٌور ہوں میں بات یہ ہے کہ کوئی آنکھ بھی دلچسپی لے شیشۂ خواب دکھانے میں تو
وعدوں کے آسماں سے برسی دغا کی بارش ہوتی ہے باوفا پر اکثر جفا کی بارش رنگیں جہان سارا بے رنگ ہوگیا ہے ظالم نے جب سے کی ہے مجھ
اُتارتا ہوں ڈائری پر اک خیال کی تھکن کِسی کے ساتھ کے عروج اور زوال کی تھکن جو ایک جھوٹے دستخط پہ سینکڑوں کماتا ہے کہاں سمجھ سکے گا وہ
آنکھ حیران نہ ہو خواب کو مشکل نہ پڑے اس طرح ٹوٹ کہ اعصاب کو مشکل نہ پڑے کھول رکھتا ہوں گریبان ہمیشہ اپنا زخم دیتے ہوۓ احباب کو مشکل
کیا پوچھتے ہو ،زیست میں کیا تجربہ رہا ؟ وہ دوڑ ہی نہیں تھی جو میں دوڑتا رہا وہ لفظ کیا تھے ،کس نے کہے تھے، خبر نہیں بس اِتنا
دشت کو پُرفضا بناتے ہوئے عمر گزری شجر لگاتے ہوئے باغ میں خوش نوا پرندے ہیں لاج آتی ہے گُنگنُاتے ہوئے
اگرچہ ہوں تو سہی پاش پاش میں درویش عجب ہے دکھتا نہیں بود و باش میں درویش ذرا دماغ میں، دل میں، خیال میں ہی سہی خدایا آ کہ ہوں
خط کئی لکھے مگر اک بھی نہ اِرسال کیا میں نے یہ کام کئی ماہ، کئی سال کیا اور بھی کام تھے، پر میں نے محبت کو چُنا ہاں! ضروری
Load More