کچھ بھی تو پھر بنا اس کےدیکھا نہ تھا
عکس اوجھل کبھی اس کا ہوتا نہ تھا
رب نےبخشی تھی دولت اسے حسن کی
دید سے نینوں کا پیالہ بھرتا نہ تھا
عشق کی آگ میں تنہا جلتی رہی
حال دل کا کبھی اس نے پوچھا نہ تھا
جب اُس نے پُوچھا حال تو ، میں نے کہا ؛ میں ٹھیک ہوں
اُسے بھی میری بات سے ، یہی لگا میں ٹھیک ہوں
یہ میرے لوگ حال میرا پُوچھنے کو آئے ہیں
میں ٹھیک تو نہیں ہوں پر ، یہی کہا میں ٹھیک ہوں
ترے جہان میں کسی کی اب مجھے طلب نہیں
میں کہہ رہا…
کٹ گئی ہے زندگانی ہم سفر کی آس میں
مر ہی جائیں گے کسی دن چارہ گر کی آس میں
طاقت پرواز جب سے چھین لی صیاد نے
رینگتے رہتے ہیں پنچھی بال و پر کی آس میں
کھا گئی سپنے غریبی اڑ گیا رنگِ شباب
در بدر پھرتے رہے ہم اپنے گھر کی آس میں…
اے میرے دل تو بتا بھی تجھے ہوا کیا ہے؟
یہ تیرے درد کی آخر بتا دوا کیا ہے؟
لہو کے گھونٹ جو بھرتا ھی جا رہا ہے تو
کسی کے لب سے ابھی کے ابھی سنا کیا ہے؟
یہ شرم سے تیری آنکھیں جھکی جھکی کیوں ہیں؟
اے ہم سفر…
ہر طرف بے بسی کا عالم ہے
جس کو دیکھو وہ شخص بے دم ہے
کوئی انسانیت نہیں باقی
مال کے آگے سب کا سر خم ہے
مشرقی والدین کیا جانیں
مشرقی نسلِ نو کو کیا غم ہے
کیوں محبت کے نام پر ہر شخص
دل گرفتہ…
غم سے وابستگی میری قسمت میں ہے
ایک افسردگی میری قسمت میں ہے
جگکماتے جہاں سے نہ دل لگ سکا
مستقل تیرگی میری قسمت میں ہے
مال و ذر کی کمی تو نہیں ہے مگر
تلخیِ مفلسی میری قسمت میں ہے
کیا میں محرومِ محفل رہونگا سدا
کیا غمِ دل لگی…