کس نے رشتوں سے جڑے رہنے کی قیمت مانگی
ہم نے چلنا بھی نہ سیکھا تھا کہ ہجرت مانگی
مل کے اک رات ،چراغوں نے ،خداۓ کُن سے
آنکھ ,سورج کو دکھانے کی اجازت مانگی
موج ہوا کا ذائقہ چکھتے ہی بجھ گئے
سہمے چراغ وقت سے پہلے ہی بجھ گئے
کل شب مرا جُھکاؤ چراغوں کی سمت تھا
فورا انہیں جلا لیا جیسے ہی بجھ گئے
اتنے بڑے جہان میں کتنے چراغ تھے
آندھی چلی تو صرف ہمارے ہی بجھ گئے
روشن کئی چراغ تھے شب کے…
آنس و ثروت کچلتی، خوں بہاتی ریل تھی
ہاۓ کیا درمانِ وحشت خود کشی کی ریل تھی !
اسکو رخصت کر دیا ہے دل سے سب یادوں سمیت
وہ! جو اس جنکشن پہ آئی حادثاتی ریل تھی
سیٹ ملتی تو میں کرتا سات دنیاؤں کی سیر
اس بدن سے اٹھتی خوشبو کائناتی ریل تھی…
تو اگر کہہ دے تو اتنی سی جسارت کردوں
اپنے جذبات کے شعلوں کو عبارت کردوں
کوئی یوسف تھا جو بازار میں دیکھا میں نے
سوچا زنداں کی سلاخوں کو بشارت کردوں
بیتے لمحوں کی کسک اب تو وبال جاں ہے
اے دلِ زار تیری کیوں نہ تجارت کردوں
تیری زد…
دوڑ کر آؤں گا مجھ کو تُو اگر آواز دے
میرے ہمدم میرے ساتھی چارہ گر آواز دے
منزلوں کی چاہ ایسی ہو کہ بس چلتے رہیں
حوصلے اتنے قوی ہوں کے سفر آواز دے
موت کی دہلیز سے واپس پلٹ سکتا ہوں میں
ایک بار اپنا سمجھ کر تُو اگر آواز دے
ہر طرف…
صورتِ خواب جو آنکھوں سے لگایا جاتا
کاش ہر خواب کو تعبیر بنایا جاتا
(بیوی سے دور ایک شوہر کے دل کی آواز جو وڈیو کال پر اپنی بیوی سے بات تو کر سکتا ہے ملاقات نہیں.)
صورتِ خواب جو آنکھوں سے لگایا جاتا
کاش ہر خواب کو تعبیر بنایا جاتا…