مرغوب یوں ہوئی ہمیں بابر اداۓ یار مانگا نہ کچھ خدا سے کبھی ماسواۓ یار ہم ہی نہیں جہاں میں فقط مبتلاۓ یار پھرتے ہیں بادشاہ بھی بن کر گداۓ
poetry about friend
سوچا تھا کٹھن وقت میں غمخوار ملیں گے معلوم نہیں تھا کہ اداکار ملیں گے بدلیں گے نہ ہم جامہ کبھی اپنی طلب کا سوبار بچھڑ کر تمہیں سوبار ملیں
سارے منافقوں سے ، تجھ کو بچائے اللہ سب تیرے دشمنوں سے ، تجھ کو بچائے اللہ جو تیری کامیابی ، پر جل رہے جہاں میں ان سارے حاسدوں
کمینہ پن دکھاۓ گا کمینہ، یار سمجھا کر دسمبر ہے فحاشی کا مہینہ، یار سمجھا کر بڑی ظالم ہے یہ دنیا تجھے برباد کر دے گی نہیں ہوتی محبت بے
ملیں گے کیسے ترے یار اب تجھے سارے تفکرات کی دنیا میں گم ہوئے سارے لکھا ہوا ہے ترا نام خانۂِ دل میں بجھے نہیں ہیں تری یاد کے دیے
بدلے ہیں رفتہ رفتہ مرے یار کس لیے ؟ آئی مرے نصیب میں یہ ہار کس لئے ؟ کیونکر معاہدے سے زباں پھیر لی گئی ؟ نفرت کے بیچ لایا
دیا غم کا جلانے کو چلے غمخوار آتے ہیں بڑھانے سوزشِ خاطر مرے دلدار آتے ہیں خبرپھیلی ہوٸی تھی کُو بہ کُو میری علالت کی مگرپھر بھی عیادت کو فقط
اگر تم عیب میرے دنیا والوں سے چھپا لیتے مجھے بھی دل سے آخر دوست اپنا تم بنا لیتے یہی تو دوستی کا وصف ہے دنیا میں ہر جانب وفاؤں
چلنا پڑا ہے تنہا کوئی نہیں کسی کا دیکھی ہے میں نے دنیا کوئی نہیں کسی کا مجبوریوں نے گھیرا تب جان پائے ہم بھی اپنا ہو یا پرایا کوئی
بدگماں ہوکر ہمارا یوں نا پیچھا کیجیے ہم ترے دشمن نہیں ہم پر بھروسہ کیجیے ہم سے بڑھ کر کون ہے اس سرزمیں کا خیرخواہ ہم کو دشمن کی نگاہوں
Load More