خوابِ غفلت سے نکل جا ایک دن مرنا بھی ہے
اے مسلماں اب سنبھل جا ایک دن مرنا بھی ہے
چار دن کی روشنی ہے پھر اندھیری رات ہے
آج موقع ہے بدل جا ایک دن مرنا بھی ہے
کل رات خواب دیکھا گھربار کھو رہا تھا
دو گز کے قید خانے میں قید ہورہا تھا
ویران سا پڑا تھا ویران سے مکاں میں
پُرہول سا سماں تھا اُس وقت اُس جہاں میں
سنسان سی جگہ تھی، کیا فاٸدہ فغاں میں؟
خلوت نشین تھا میں خلوت میں رو رہا تھا…
یہ دنیا ہماری تو بس اک سفر ہے
سفر کرنے والوں کی منزل قبر ہے
بظاہر تو مٹی ہے مدفن ہمارا
مگر نار یا نور ہی ہے سراپا
عمل پر ہمارے قبر کا ہے نقشہ
ہے جنت کی کھڑکی یا بچھو کا گھر ہے