موج ہوا کا ذائقہ چکھتے ہی بجھ گئے
سہمے چراغ وقت سے پہلے ہی بجھ گئے
کل شب مرا جُھکاؤ چراغوں کی سمت تھا
فورا انہیں جلا لیا جیسے ہی بجھ گئے
اتنے بڑے جہان میں کتنے چراغ تھے
آندھی چلی تو صرف ہمارے ہی بجھ گئے
روشن کئی چراغ تھے شب کے…
کسی نے خار ، کسی نے دیے گلاب مجھے
سو جیسے لوگ تھے ویسے ملے جواب مجھے
وہ روشنی جو مری ذات سے نہ پُھوٹی تھی
ہَوا کو دینا پڑا اُس کا بھی حساب مجھے
مَیں اب چراغِ شبستاں بُجھانے والا ہوں
بلا رہا ہے سرِ دشت ماہتاب مجھے
مری سرشت، مری…