مرغوب یوں ہوئی ہمیں بابر اداۓ یار مانگا نہ کچھ خدا سے کبھی ماسواۓ یار ہم ہی نہیں جہاں میں فقط مبتلاۓ یار پھرتے ہیں بادشاہ بھی بن کر گداۓ
دوستی پر شاعری
سوچا تھا کٹھن وقت میں غمخوار ملیں گے معلوم نہیں تھا کہ اداکار ملیں گے بدلیں گے نہ ہم جامہ کبھی اپنی طلب کا سوبار بچھڑ کر تمہیں سوبار ملیں
خوشی ان میں بانٹو جو غم میں ہوں ساتھی وہ ڈھونڈو جو رنج و اَلَم میں ہوں ساتھی وہ بزمِ جہاں کا پتہ کوئی دے دے ملیں مجھ کو
میں شکستہ دل ہوں میرا ہمنوا کوئی نہیں مجھ سے مخلص باوفا میرے سوا کوئی نہیں دے کوئی مجھ کو بھی لوگوں کو پرکھنے کا ہنر میری قسمت میں رفیقِ
بدلے ہیں رفتہ رفتہ مرے یار کس لیے ؟ آئی مرے نصیب میں یہ ہار کس لئے ؟ کیونکر معاہدے سے زباں پھیر لی گئی ؟ نفرت کے بیچ لایا
اک دن تو رفاقت میں بچھڑنا ہی پڑے گا فرقت کی اذیت سے گزرنا ہی پڑے گا انجام بھلا ہجر کا الفت کا عمق ہو کچھ روز مگر دل
اگر تم عیب میرے دنیا والوں سے چھپا لیتے مجھے بھی دل سے آخر دوست اپنا تم بنا لیتے یہی تو دوستی کا وصف ہے دنیا میں ہر جانب وفاؤں
چلنا پڑا ہے تنہا کوئی نہیں کسی کا دیکھی ہے میں نے دنیا کوئی نہیں کسی کا مجبوریوں نے گھیرا تب جان پائے ہم بھی اپنا ہو یا پرایا کوئی
بدگماں ہوکر ہمارا یوں نا پیچھا کیجیے ہم ترے دشمن نہیں ہم پر بھروسہ کیجیے ہم سے بڑھ کر کون ہے اس سرزمیں کا خیرخواہ ہم کو دشمن کی نگاہوں
تُو مصروفِ زمانہ ہے تجھے ہم یاد کیا آئیں تیری عادت بُھلانا ہے تجھے ہم یاد کیا آئیں ہمارے رنج و غم کی داستاں ظالم ترے آگے فسانہ ہی فسانہ
Load More