تجھ کو اوقات بتاؤں گا کسی دن میں بھی تیرا گھر بار جلاؤں گا کسی دن میں بھی تو نے جس طرح مری روح کو تڑپایا ہے تجھ کو اس
انقلابی شاعری
پھر سے یہ محکوم ملت ہو گئی ہاۓ یارو کیا قیامت ہو گئی بالیقیں سچ کی علامت ہو گئ بات جو سامانِ عبرت ہو گئی
سمجھ رہے ہیں گنہگار سب جہاں والے زمین تنگ نہ ہو مجھ پہ آسماں والے چلے ہیں جب سے اٹھا کر بغاوتوں کے علم کھٹک رہے ہیں زمانے کو ہم
قریبی رشتوں میں پیدا دراڑ کرتے رہے سیاسی لوگ تھے بہلا کے وار کرتے رہے وطن کے نام پہ ہم جا نثار کرتے رہے وہ ہم پہ پھر بھی کہاں
اے لوگو سبھی متحد تم ہو جاؤ کہ جنت کی وادی کو جنت بناؤ خزاں کے پجاری شیطاں کو بھگاؤ بہار اخوت سے گلشن سجاؤ وہ صیاد کو سبق ایسا
فریب دے نہ زمانے کو پارسا نہ بنے اسے کہو کہ وہ بندہ بنے خدا نہ بنے وفورِ دولتِ دنیا تو عارضی شے ہے اسے کہو کہ تکبر میں باؤلا
وطن والو یہ سب مایوسیاں دل سے نکالو تم قدم مضبوط کر کے دوسروں کو بھی سنبھالو تم حوادث لاکھ حائل ہوں جہاں بھر کی ہو سنگینی جواں جذبے سے
دکھی ہے پاک نبیوں کی سرزمیں لوگو کہاں گئے میری امت کے سب امیں لوگو یروشلم سے جو ٹکرائیں بن کے ایوبی یہ اقصی تکتی ہے ایسے مجاہدیں لوگو بہا
آ ستم گر زور اپنا آزمانے کے لیے آگئے میدان میں ہم جاں لٹانے کے لیے خود سے قاتل آگئے ہم تیرے خنجر کے تَلے اپنے خوں سے زینتِ مَقتل
جدا ہم ہو گئے لیکن محبت کم نہیں ہو گی کبھی مکار بنیے سے عداوت کم نہیں ہو گی 16 دسمبر 1971 کا تلخ دن جب پاکستان کا ایک بازو
Load More