مجھ سے بچھڑ کے خوش نہیں غم کھا رہا ہے وہ اک بھول کرکے اب سدا پچھتا رہا ہے وہ کرتا تھا جو کہ شوخی شرارت سبھی جگہ آتے ہی
الیاس ناز
زمانے کی ہر چیز میں جو چھپا ہے وہ نورِ خدا ہے وہ نورِ خدا ہے یہ انسان حیواں چرندے پرندے وہی سبکا معبود سب اسکے بندے
سنجیدگی بھی لازمی ہے دل لگی کے بعد آتی ہے موت جیسے ہمیں زندگی کے بعد سورج اگے گا دن کا شبِ تیرگی کے بعد ہوگا اندھیرا شام کو پھر
در ہمیشہ کھلا ہوا رکھنا جاری ملنے کا سلسلہ رکھنا اہلِ باطل کے بیچ جو حق ہو بات کہنے کا حوصلہ رکھنا آندھیاں آئیں یا کہ طوفاں ہوں تم چراغِ