لبوں پر دشمنی کے تذکرے اچھے نہیں لگتے
سماعت کو یہ کڑوے ذائقے اچھے نہیں لگتے
مری آنکھوں میں ایسے جھلملاتے ہی رہیں آنسو
چراغوں سے یہ خالی طاقچے اچھے نہیں لگتے
کیا پوچھتے ہو ،زیست میں کیا تجربہ رہا ؟
وہ دوڑ ہی نہیں تھی جو میں دوڑتا رہا
وہ لفظ کیا تھے ،کس نے کہے تھے، خبر نہیں
بس اِتنا یاد ہے کہ مرا دل دُکھا رہا
تیرے ہونٹوں پہ مرے نام کی تکرار ہے کیوں
گر نہیں پیار، تو پھر پیار کا اظہار ہے کیوں
ساتھ چلنے کا ہے وعدہ تو سنبھل کر چلنا
دامن خاک پہ یوں تیز پا رفتار ہے کیوں
خط کئی لکھے مگر اک بھی نہ اِرسال کیا
میں نے یہ کام کئی ماہ، کئی سال کیا
اور بھی کام تھے، پر میں نے محبت کو چُنا
ہاں! ضروری یہ لگا، بس یہی فِی الحال کیا