آشنائی کا اثاثہ بھی بہت ہوتا ہے
بھیڑ میں ایک شناسا بھی بہت ہوتا ہے
تم کو تفصیل میں جانے کی ضرورت ہی نہیں
دکھ بڑا ہو تو خلاصہ بھی بہت ہوتا ہے
ہم بھی کیا لوگ ہیں سب جھولیاں بھر لاتے ہیں
بے یقینی کا تو ماسہ بھی بہت ہوتا ہے
شکریہ…
خوشی کا ایک لمحہ اورغموں کا اک زمانہ کیوں
میں اک لا چار بندہ ہوں مجھے اتنا ستانا کیوں
محبت کے لبادے میں جفا تم نے جو کی ہم سے
محبت کر نہیں سکتے تو کر نے کا بہانہ کیوں
لبوں پر دشمنی کے تذکرے اچھے نہیں لگتے
سماعت کو یہ کڑوے ذائقے اچھے نہیں لگتے
مری آنکھوں میں ایسے جھلملاتے ہی رہیں آنسو
چراغوں سے یہ خالی طاقچے اچھے نہیں لگتے
کیا پوچھتے ہو ،زیست میں کیا تجربہ رہا ؟
وہ دوڑ ہی نہیں تھی جو میں دوڑتا رہا
وہ لفظ کیا تھے ،کس نے کہے تھے، خبر نہیں
بس اِتنا یاد ہے کہ مرا دل دُکھا رہا