غم چھپا کر مسکراتا ہوں سدا غمگین ہوں
سب کو خوشیاں دے کے بھی میں خود رہا غمگین ہوں
دردِ دل سے کس طرح تم کو کروں میں آشنا
دور مجھ سے وہ ہوا؛ تھا آشنا غمگین ہوں
درد میں ہوں مبتلا میں دل میں تیرا زخم ہے
تو نے مجھ کو دے دیا پر کتنا گہرا زخم ہے
جس کو اپنا میں نے جانا وہ منافق بن گیا
غیر کا ہرگز نہیں یہ میرا اپنا زخم ہے
غم کی دہلیز پہ تنہا ہوں میاں کوئی نہیں
مجھ کو لگتا ہے بھلائی کا نشاں کوئی نہیں
در بدر ایسے بھٹکتا ہوں ، مکاں کوئی نہیں
اے خدا تیرے سوا میرا یہاں کوئی نہیں
آشنائی کا اثاثہ بھی بہت ہوتا ہے
بھیڑ میں ایک شناسا بھی بہت ہوتا ہے
تم کو تفصیل میں جانے کی ضرورت ہی نہیں
دکھ بڑا ہو تو خلاصہ بھی بہت ہوتا ہے
ہم بھی کیا لوگ ہیں سب جھولیاں بھر لاتے ہیں
بے یقینی کا تو ماسہ بھی بہت ہوتا ہے
شکریہ…