اعتکاف کے آداب | ایک بہترین عبادت جس کے آداب سمجھنا نہایت ضروری ہیں

Protocols of Ramdan retreat

0 0

اعتکاف کے آداب سمجھنا اور سیکھنا نہایت ضروری ہے۔  اعتکاف جسمانی اور روحانی دونوں آلودگیوں اور بیماریوں سے بچنے کا بہترین ذریعہ ھے۔۔ ذرا اسے آزما کے تو دیکھیں لیکن شرط یہ ھے کہ اعتکاف کے آداب کے ساتھ کریں سرانجام دیں۔۔۔ گھر والوں ،دوستوں رشتہ داروں، احباب کے ساتھ کم سے کم تعلق رکھیں۔  یعنی تقلیل الاختلاط اختیار کریں ۔۔۔۔ اگر ھم کرونا کی وبا میں ایسا کر سکتے ہیں اور کسی سے ہاتھ تک نہیں ملاتے تھے نہ کسی کے قریب جاتے تھے تو صرف دس دنوں کے اعتکاف کے لیے لوگوں سے کچھ علیحدگی کیوں نہیں کر سکتے۔۔؟

دوران اعتکاف کم کھانا کم سونا

اسی طرح کم کھانا(تقلیل الطعام) ،کم سونا(تقلیل المنام) اور کم بولنا(تقلیل الکلام) ،یہ بھی جسم و روح کی اصلاح کے لیے بہت ضروری چیزیں ہیں۔۔ ان کی تو عام حالات میں بھی اسلام نے تلقین کی ھے ۔۔اعتکاف میں اس کی ٹریننگ کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے۔۔۔اور سنت کے مطابق الگ خیمے میں بیٹھنا بھی ضروری ھے۔۔۔یہ نہ ھو کہ اپنے خیمے میں یا خیمے سے بھی باہر نکل کے لوگوں کے ساتھ مجلسیں لگا کے بیٹھے رہیں۔۔ اعتکاف کے ان آداب پر عمل کر کے ہی آپ خود کو جسمانی و روحانی دونوں کثافتوں اور بیماریوں سے پاک صاف کر سکتے ہیں۔۔۔۔اس میں اگر موبائل فون کے جدید فتنے سے بھی اگر مکمل بچا جا سکے تو یہ آج کل زہد کا یقینا بڑا درجہ ھو گا۔۔کہ یہ موبائل بھی تنہائی اور یکسوئی کے ساتھ عبادت کے مقصد کو بہرحال کچھ نہ کچھ ضرور آلودہ اور خراب کرتا ھے چاھے اسے جتنا بھی نیک مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے۔۔۔

موبائل کا بیجا استعمال اعکتاف کے آداب کے خلاف ہے

لوگ تو اب موبائل سے ایک لمحہ بھی الگ ھونے کا تصور نہیں کرتے ۔۔حتی کہ حج عمرہ میں بھی موبائل کا بلا ضرورت اور بے دریغ استعمال عام ھو چکا ھے۔۔پہلے جو ہاتھ اللہ کی بارگاہ میں گڑگڑاتے ھوئے اٹھتے تھے،اب وہ صرف سیلفیوں کے لیے اٹھتے ہیں۔۔ایک ٹریول ایجنسی والے بھائی بتا رھے تھے کہ جو لوگ حج عمرہ کے لیے جاتے ہیں تو انہیں کوئی چھوٹا سا بھی مسئلہ یا تکلیف پیش آ جائے تو فورا کالوں کی لائن لگا دیتے ہیں۔۔وہ بتا رھے تھے کہ اپنے پورے کام میں انہوں نے صرف ایک بزرگ عالم کو دیکھا جو گھر سے ایک چھوٹا سا سادہ موبائل تک نہیں لے گئے۔۔ھم نے اور ان کے اقرباء وغیرہ نے کافی کہا کہ جناب موبائل کی کافی ضرورت پڑتی ھے ۔۔آپ ساتھ لے کے جائیں۔ لیکن انہوں نے انکار کر دیا اور کہا کہ میں اللہ کے گھر عبادت کے لیے جا رہا ھوں ۔۔لوگوں سے باتیں کرنے کے لیے نہیں۔۔۔اللہ ایسا زہد و تقوی سب کو عطا کرے۔۔۔امین

لایعنی گفتگو اور ہنسنا ہنسانا دوران اعتکاف مناسب نہیں

آج کل جو لوگ شہر اعتکاف سجا کے بیٹھ جاتے ہیں،انہیں بھی غور کرنا چاہیے کہ شہر کے جس شور و شغب اور رونق میلہ سے ہٹا کر اعتکاف کے ذریعے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے روکنے کی کوشش کی،ویسی رونقیں اور میلے آپ اگر اعتکاف کے نام پہ لگا کے بیٹھ گئے تو پھر وہ اعتکاف کہاں رھے گا۔۔۔ اگر پھر وہی اکٹھے بیٹھ کر خوب گپیں لگانی ہیں،ہنسنے ہنسانے اور مل بیٹھ کے دنیا جہان کی غیبتوں میں یہ مختصر قیمتی وقت گزارنا ھے تو پھر اعتکاف کے فوائد اور برکتیں آپ حاصل نہیں کر سکتے۔۔زیادہ لایعنی اور ںے مقصد گفتگو کرنے اور زیادہ ہنسنے ہنسانے سے تو عام حالات میں بھی منع کیا گیا ھے۔۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،زیادہ ہنسنے سے بچو کہ اس سے دل مردہ ھو جاتا ھے(ابن ماجہ،ترمذی)

لیکن آج کل زندگی کے بڑھتے ھوئے دکھوں کا بہانہ بنا کر ہنسنے ہنسانے اور کامیڈی کرنے والوں کی بڑی تعریف کی جاتی ھے کہ یہ ہمیں ہنسا کے ہمارے دکھ بانٹ رھے ہیں۔۔۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تو پوری زندگی میں ایک آدھ دفعہ کے سوا کہیں بھی کھل کھلا کے ہنسنا یا قہقہے لگانا ثابت نہیں۔۔ زیادہ ہنسنا اسلامی تعلیمات کے خلاف ھے۔۔ اعتکاف میں تو اس سے حددرجہ بچنا چاہیے۔۔ البتہ ہلکا پھلکا مسکرانے میں قباحت نہیں کہ مسکرا کے ملنا اور مسکرا کے بات کرنا اورسننا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت عالیہ تھی۔۔ لیکن اس میں بھی زیادتی نہ ھو تو بہتر ھے۔۔ خاص طور پہ اعتکاف کی حالت میں ۔۔کیونکہ زیادہ سے زیادہ تنہائی اور خاموشی اختیار کرنا ہی اعتکاف کی اصل روح ھے۔۔

اج کل اعتکاف کرنے والے سنجیدہ لوگ روتے ہیں کہ وہ جس تنہائی کی عبادت اور اللہ کی بارگاہ میں گریہ و زاری کے لیے اعتکاف کرنے آئے تھے،وہ تنہائی اب یہاں بھی کم ہی میسر ھے۔۔۔کئی جگہ تو خیمے لگانے کے تکلف کی بھی ضرورت نہیں سمجھی جاتی حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب اعتکاف کا ارادہ کرتے تو سب سے پہلے مسجد میں خیمہ لگواتے(ابن ماجہ) اگر خیمہ ہی نہیں لگانا اور ایک مجلس بنا کے ہی مسجد میں بیٹھے رہنا ھے تو یہ سراسر اعتکاف کے آداب اور روح کے منافی ھے۔۔اعتکاف کا مقصد تنہائی کے ماحول میں ریاکاری سے بچ کے اللہ کی عبادت کرنا ھے۔۔۔جب خیمہ ہی نہ ھو گا تو تنہائی بھی ختم اور اعتکاف کی روح بھی ختم۔۔۔اللہ تعالیٰ ہمیں اعتکاف اس کے مکمل آداب اور زیادہ سے زیادہ تنہائی کے ساتھ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔۔آمین

اعتکاف خالق کے قریب کرتی ہے لیکن مخلوق سے دور نہیں کئونکہ یہ ایک فطری عبادت ہے

یہ یاد رھے کہ دوسرے مذاھب کے راہبوں ، یوگیوں اور سادھوؤں ،بھکشؤوں اور بدھسٹوں نے بھی اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لیے تنہائی کی عبادت کا ہی طریقہ اختیار کیا لیکن وہ اس سلسلے میں دوسری انتہا پر پہنچ گئے اور افراط و تفریط کا شکار ھو کر ہمیشہ کے لیے جنگلوں غاروں میں جا کر عبادت کرنے لگے اور یوں حقوق العباد سے مکمل کنارہ کش ھو گئے جو ایک دوسری غلط انتہا تھی۔۔ہمارے ہاں صوفیوں نے بھی دیکھا دیکھی یہی طریقے اختیار کر لیے۔۔ بظاہر ان کا مقصد یہی تھا کہ اس طرح وہ اللہ کی رضا زیادہ سے زیادہ حاصل کر سکتے ہیں۔۔ ہندو سادھو،،بدھ بھکشو تو اسے ہی نروان(دنیا کے دکھوں سےنجات)حاصل کرنے کا ذریعہ بتاتے۔۔ لیکن یہ نجات حاصل کرنے کی غلط راہ تھی جس سے اسلام نے روک دیا کہ انسان اس طرح خود تو شاید پھر بھی نروان(دکھوں سے نجات) حاصل نہ کر سکے لیکن اپنے بیوی بچوں،والدین اور دیگر متعلقین کو دکھوں میں ضرور ڈال دے گا۔۔

اسی لیے تارک الدنیا ھونے کی بجائے اسلام نے مختصر عرصے کے لیے اعتکاف جیسی معتدل راہ دکھائی تاکہ اللہ کی رضا اور نروان بھی حاصل ھو جائے اور حقوق العباد کی پامالی کا بھی خطرہ نہ ھو۔۔ ہمیشہ کے لیے بھوکا پیاسا رہنے کی بجائے صرف ایک ماہ کے رمضان کے روزے فرض کیے گئے اور عام دنوں میں بھی چند خاص دنوں کے علاوہ زیادہ سے زیادہ ایک دن چھوڑ کر روزہ رکھنے کو کہا گیا ۔۔۔اسی طرح ہمیشہ پوری رات عبادت سے بھی روکا گیا ۔۔۔ سادھو ،صوفی لوگوں کے قصے پڑھیں تو ان کی عبادتوں کے بڑے عجیب و غریب طریقے ملتے ہیں۔۔۔ ایک تو روزانہ پوری رات عبادت کرتے اور پھر وہ بھی الٹے سیدھے طریقوں سے کہ جناب کبھی کنویں میں الٹے لٹکے کھڑے ہیں اور کبھی بگلے کی طرح ایک ٹانگ پہ کھڑے ھو کے ساری رات عبادت ھو رہی ھے اور کبھی کسی درخت اور دھاگے سے لٹکے عبادت فرما رھے ہیں۔۔اسلام نے ان سب غیر فطری طریقوں سے ہٹا دیا اور رمضان کی کچھ راتوں کے سوا عام حالات میں نصف شب یا اس سے کچھ زائد کی حد تک عبادت کی اجازت دی ۔۔۔
جن لوگوں نے عبادت کے غیر فطری طریقے نکالے اور رہبانیت اختیار کی،ان کی اس رہبانیت کے اور بھی بڑے غلط نتائج نکلے ۔یہ راھب اور سادھو غیر شرعی عبادتوں کے ساتھ ساتھ مجرد اور کنوارا بھی رہنے لگے_ اسلام نے ان تمام غیر فطری کاموں سے روک دیا۔اس کی بجائے جلد شادی کرنے کی ترغیب دی کہ اس سے انسان زنا اور دیگر برائیوں سے بچ جاتا ھے۔۔دنیا نے دیکھا کہ جو راھب بھکشو،پادری اس غیر فطری راہ پہ چلے، وہ پھر ھم جنسیت اور زنا جیسی برائیوں کی دلدل میں ڈوب گئے ۔۔آج کل اور ماضی کے پادریوں کی بے شمار رپورٹیں اس کی شاہد ہیں کہ اس رہںبانیت کے کس قدر غلط نتائج نکلے ۔۔چرچوں گرجوں میں شاید ہی کوئی پادری بچا ھو جو زنا اور ھم جنسیت کا شکار نہ ھوا ھو بلکہ اب تو آگے بڑھ کر یہی پادری ھم جنسیت کی شادی کو بھی جائز قرار دینے لگے ہیں۔ ۔۔ان کی اس بے اعتدالی کے بھیانک نتائج کی رپورٹ اور گواہی خود اللہ نے بھی دی۔۔۔۔۔ فرمایا

رہبانیت کی بدعت تو انہوں نے خود ایجاد کرلی ۔۔۔ھم نے تو ان پر فرض نہ کی تھی۔۔انہوں نے اس لیے کی کہ اس طرح اللہ کی رضا حاصل کر لیں لیکن پھر وہ اس کا حق بھی ادا نہ کر سکے (الحدید27)

غرض اسی لیے اللہ رب العزت نے ہر کام کا معتدل اور فطری طریقہ بتا دیا کہ اعتدال میں ہی تمہاری بہتری ھے ۔۔ نہ روزے ہمیشہ رکھنے ہیں نہ ساری عمر کنوارا رہنا ھے نہ ساری رات عبادت کرنی ھے۔۔گھر سے باہر تنہائی کی عبادت کو بھی صرف اعتکاف کی صورت میں ایک حد تک برقرار رکھا۔۔۔تاکہ تنہائی کی عبادت کے فوائد سے انسان یکسر محروم نہ ھو اور انسان کی روحانی ترقی و پاکیزگی کا کچھ وسیلہ بھی باقی رھے۔۔۔

تحریر: قاضی کاشف نیاز

اعتکاف کی اہمیت اور فضیلت | ایک ایسی عبادت جو بندے کو رب کے قریب تر کر دے

 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.