شبِ سیاہ میں کچھ اِس لیے عیاں تھے ہم زمیں پہ پھیلی ہوئی گَردِ کہکشاں تھے ہم چراغ اور ہَوا میں نہ تھا گُریز کوئی اک ایسی طرزِ ضیافت کے
عادل حسین
دشمن و یار کچھ نہیں دیکھا میں نے اس بار کچھ نہیں دیکھا دُھند کو چیرتے ہوئے گزرا کیا ہے اُس پار،کچھ نہیں دیکھا
یہ جو تیرا مرا تعلق ہے سوچ سے ماورا تعلق ہے کوئی شجرہ نہیں مُحبّت کا ایک خود ساختہ تعلق ہے
شکیب و صبر کے پیکر بھی آزمائے گئے جہاں میں آئے پیمبر بھی آزمائے گئے گزشتہ رات فقط اک مرا چراغ نہیں نُجُوم و ماہِ مُنوّر بھی آزمائے گئے
تباہیوں کے شکستہ نشاں سنبھالے گئے سفینے ڈوب گئے ، بادباں سنبھالے گئے یہی سبب تھا تعلُّق کی بے ثباتی کا یقین چھوڑ کے وہم و گماں سنبھالے گئے
ہر طرف ہے وبال وحشت کا دشت ہے ہم خیال وحشت کا ایک سا ڈر ہے روح و منظر میں دیکھیے اعتدال وحشت کا تیری رفتار تیز تر ہوگی دل
موسم کے التفات کو ہیجاں سمجھ لیا بادِ سحر کو موجہء طوفاں سمجھ لیا تم سے بچھڑ کے عمر کے ہر موڑ پر مجھے کچھ فائدہ ہُوا بھی تو نقصاں
دشت کو پُرفضا بناتے ہوئے عمر گزری شجر لگاتے ہوئے باغ میں خوش نوا پرندے ہیں لاج آتی ہے گُنگنُاتے ہوئے
سوچا تھا کٹھن وقت میں غمخوار ملیں گے معلوم نہیں تھا کہ اداکار ملیں گے بدلیں گے نہ ہم جامہ کبھی اپنی طلب کا سوبار بچھڑ کر تمہیں سوبار ملیں
موج ہوا کا ذائقہ چکھتے ہی بجھ گئے سہمے چراغ وقت سے پہلے ہی بجھ گئے کل شب مرا جُھکاؤ چراغوں کی سمت تھا فورا انہیں جلا لیا جیسے ہی
Load More