یہ دمشق ہے ۔ امویوں کا دمشق۔ اس وقت بھی آباد تھا، جب سیدنا ابراھیم علیہ السلام نے دین حق کی منادی کی تھی۔ یہ سیدنا داؤد اور سیدنا سلیمان
تحریم افروز
موحدون یا موحدین، شمالی افریقہ کے بربر مسلمانوں کی سلطنت تھی۔ ان کے بانی کا نام محمد بن تومرت تھا۔ ابن تومرت نے تحصیل علم کے لیے افریقہ سے بغداد
مئی سے مئی تک الہی ہم پر رحم کر اور اپنی پناہ ہم پر دراز کر دے۔ الہی ہم یقین رکھتے ہیں کہ ہمارے حکمران ایسے نہیں ہوں گے۔ مگر
نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے. تاریخ کے طالب علم کا ایک المیہ ہے۔ آپ اسے یوں سمجھ لیجیے کہ آپ ایک خوب صورت اور آرام دہ سلائیڈ پر
ابو البقاء الرندی سقوط اندلس پر لکھتے ہیں کہ زمانے بیت جائیں گے ۔۔۔۔ مگر اندلس کے سقوط کا المیہ بھلایا نہیں جا سکے گا مسلمان اسے کبھی نہیں بھولیں
غرناطہ کا مدرسہ یوسفیہ صدیوں سے قبلہ رو کھڑا ہے۔ کسی کے انتظار میں یا شاید اس گمان میں کہ اس کے قریب کوئی اپنا بھی موجود ہے۔ جیسے کوئی
الحکم ثانی اپنے والد عبد الرحمن ثالث کی وفات کے بعد اکتوبر 961 کو تخت نشیشن ہوا۔ الحکم ایک مفکر تھا اسی لیے وہ جنگ و جدل سے گریز کرتا