خوابِ غفلت سے نکل جا ایک دن مرنا بھی ہے
اے مسلماں اب سنبھل جا ایک دن مرنا بھی ہے
چار دن کی روشنی ہے پھر اندھیری رات ہے
آج موقع ہے بدل جا ایک دن مرنا بھی ہے
ہے مدینے کا سماں چاروں طرف
نور کی ہے کہکشاں چاروں طرف
بوسہ ء گنبد کو یہ بے تاب ہے
جھک رہا ہے آسماں چاروں طرف
یاد آئے پھر بہت حبشی بلال
گونجی مسجد جب اذاں چاروں طرف
ہم اپنے گھر کا رستہ بھول کر صحرا میں آ نکلے
بجھانے پیاس اپنی ریت کے دریا میں آنکلے
کبھی چہرے بھی دیتے ہیں کھلا دھوکا نگاہوں کو
تلاش دوستاں تھی ہم صف اعدا میں آنکلے
آؤ لوگو سب ملکر اک شجر لگاتے ہیں
سر پہ ٹھنڈی چھت والا ایک گھر بناتے ہیں
گرمیوں کی چھاؤں ہیں ، سردیوں کا ایندھن ہیں
کون کہتا ہے یہ پیڑ پھل نہیں بناتے ہیں؟
لبوں پر دشمنی کے تذکرے اچھے نہیں لگتے
سماعت کو یہ کڑوے ذائقے اچھے نہیں لگتے
مری آنکھوں میں ایسے جھلملاتے ہی رہیں آنسو
چراغوں سے یہ خالی طاقچے اچھے نہیں لگتے
مدارس میں یہ رہنے والے بچے ہیں بہت اچھے
کلام رب کے پڑھنے والے بچے ہیں بہت اچھے
مدارس میں انہیں الفت محبت ہی سکھاتے ہیں
وفا میں آگے بڑھنے والے بچے ہیں بہت اچھے
اے لوگو سبھی متحد تم ہو جاؤ
کہ جنت کی وادی کو جنت بناؤ
خزاں کے پجاری شیطاں کو بھگاؤ
بہار اخوت سے گلشن سجاؤ
وہ صیاد کو سبق ایسا سکھا دو
قفس توڑ کر سارے پنچھی اڑا دو