مجھے معلوم ہے آئے ماں مجھے تم یاد کرتی ہو
مری اس قبر کی مٹی پہ تم آنسو بہاتی ہو
خیالوں ہی خیالوں میں مجھے واپس بلاتی ہو
یونہی خود کو ستاتی ہو...یونہی خود کو جلاتی ہو
سمندر میں اترتا ہوں تو کانپیں ٹانگ جاتی ہیں
تری آنکھوں کو پڑھتا ہوں تو کانپیں ٹانگ جاتی ہیں
نجانے ہو گیا ہوں اس قدر ڈرپوک میں کب سے
کسی سے بات کرتا ہوں تو کانپیں ٹانگ جاتی ہیں
میں ہنس کے جھیل لیتا ہوں سبھی…