خوشی کا ایک لمحہ اورغموں کا اک زمانہ کیوں
میں اک لا چار بندہ ہوں مجھے اتنا ستانا کیوں
محبت کے لبادے میں جفا تم نے جو کی ہم سے
محبت کر نہیں سکتے تو کر نے کا بہانہ کیوں
اُتارتا ہوں ڈائری پر اک خیال کی تھکن
کِسی کے ساتھ کے عروج اور زوال کی تھکن
جو ایک جھوٹے دستخط پہ سینکڑوں کماتا ہے
کہاں سمجھ سکے گا وہ بھلا حلال کی تھکن
یومِ مزدور ہے، مزدور کو چھٹی ہی نہیں
سچ یہ مشہور ہے، مزدور کو چھٹی ہی نہیں
کیسے دوں اس کو مبارک، میں خوشی کے دن کی
دیکھ رنجور ہے، مزدور کو چھٹی ہی نہیں
کچھ بھی تو پھر بنا اس کےدیکھا نہ تھا
عکس اوجھل کبھی اس کا ہوتا نہ تھا
رب نےبخشی تھی دولت اسے حسن کی
دید سے نینوں کا پیالہ بھرتا نہ تھا
عشق کی آگ میں تنہا جلتی رہی
حال دل کا کبھی اس نے پوچھا نہ تھا