درد سن لے زندگی کے
گر سکھا دے بندگی کے
ہم ہیں عاجز تیرے بندے
غم مٹا دے ہم سبھی کے
مشکلوں کی کر کشائی
دل میں بھر دے پارسائی
ابر رحمت سے مٹا دے
داغِ عصیاں کی سیاہی
غم چھپا کر مسکراتا ہوں سدا غمگین ہوں
سب کو خوشیاں دے کے بھی میں خود رہا غمگین ہوں
دردِ دل سے کس طرح تم کو کروں میں آشنا
دور مجھ سے وہ ہوا؛ تھا آشنا غمگین ہوں
درد میں ہوں مبتلا میں دل میں تیرا زخم ہے
تو نے مجھ کو دے دیا پر کتنا گہرا زخم ہے
جس کو اپنا میں نے جانا وہ منافق بن گیا
غیر کا ہرگز نہیں یہ میرا اپنا زخم ہے
غم کی دہلیز پہ تنہا ہوں میاں کوئی نہیں
مجھ کو لگتا ہے بھلائی کا نشاں کوئی نہیں
در بدر ایسے بھٹکتا ہوں ، مکاں کوئی نہیں
اے خدا تیرے سوا میرا یہاں کوئی نہیں