نامرادی کے پسینے سے شرابور ہوں میں
اے مری تازہ تھکن دیکھ بہت چٌور ہوں میں
بات یہ ہے کہ کوئی آنکھ بھی دلچسپی لے
شیشۂ خواب دکھانے میں تو مشہور ہوں میں
اژدہے رینگتے ہیں ، بجلیاں گر جاتی ہیں
اور ستم یہ کہ عصا ہوں نہ یہاں طور ہوں میں…
اٹھا لو اِس غنیمت سے کہ جو حصہ تمھارا ہے
لٹا دو سب غریبوں میں کہ جو حصہ ہمارا ہے۔
مرے الفاظ مجھ سے اب، بغاوت کر نہیں سکتے
کہ میں نے ان کی رگ رگ میں لہو اپنا اتارا ہے۔